کھانے کے بعد سستی طاری کیوں ہوتی ہے؟ وجہ سامنے آگئی
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ دوپہر اور رات کو ذہنی طور پر مکمل بیداری اور متحرک ہونے کے باوجود کھانے کے بعد اچانک طبعیت سست اور غنودگی چھانے لگتی ہے؟
اگر آپ کو ایسا احساس ہوتا ہے تو آپ تنہا نہیں درحقیقت لاکھوں کروڑوں افراد کو اس کا تجربہ ہوتا ہے جسے طبی زبان میں فوڈ کوما بھی کہا جاتا ہے جس کا سامنا مختلف جانوروں کو بھی ہوتا ہے۔
مگر اس کی وجہ کیا ہے؟ اب سائنسدانوں کے خیال میں انہوں نے جواب ڈھونڈ لیا ہے۔
درحقیقت کھانے کے بعد کی اس غنودگی یا سستی اور طویل المعیاد یادوں کی تشکیل میں تعلق ہوسکتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
نیویارک یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت بخش غذا کے بعد طبعیت میں سستی اور غنودگی کا سامنا ہر ایک کو ہوتا ہے اور درحقیقت انسان ہی نہیں بلکہ بیشتر جانوروں میں بھی یہ ردعمل نظر آتا ہے۔
تحقیقی ٹیم میں شامل پروفیسر تھامس کریو نے بتایا کہ ہماری تحقیق میں بتایا گیا کہ 'آرام اور ہضم' کرنے والا ردعمل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جو طویل المعیاد یادوں کو بنانے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیقی ٹیم نے نے کیلیفورنیا سی سلگ نامی ایک سمندری جاندار کا جائزہ لیا کیونکہ یہ اس طرح کی تحقیق کے لیے بہت طاقتور جاندار ہے اور اس کے دماغی نیورون بیشتر جانداروں سے 10 سے 50 گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں نے کھانے اور دماغ کے تعلق کے حوالے سے ماضی کے کام کو بھی دیکھا۔
تحقیقی ٹیم کے ایک اور رکن نکولائی کیکیوشکن نے بتایا 'انسانوں میں کھانے کے بعد انسولین ہارمون کا اخراج ہوتا ہے، جس سے جسمانی خلیات غذائی اجزا کو دوران خون میں جذب کرتے ہیں اور چربی میں تبدیل کرکے طویل عرصے کے لیے محفوظ کرلیتے ہیں، مگر انسولین کا اثر دماغ پر بہت کم ہوتا ہے، اس کی جگہ ایک اور انسولین جیسے ہارمون کا اخراج ہوتا ہے جو دماغی افعال کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے جس میں طویل المعیاد یاداشت کی تشکیل بھی شامل ہے، تاہم اس کا انحصار کیلوریز کو جزوبدن بنانے پر نہیں ہوتا'۔
ان کا کہنا تھا کہ تاہم انسولین جیسے مرکبات کے انسانی جسم میں اخراج کے 2 فعال موڈیولز ہیں، ایک میٹابولک موڈیول جو انسولین کی نمائندگی کرتا ہے، جو غذا اور توانائی کے توازن کو کنٹرول کرتا ہے، جبکہ ایک دماغی موڈیول ہے، جو انسولین جیسے مرکب پر انحصار کرتا ہے اور یاداشت کی تشکیل کو کنٹرول کرتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ جس جاندار پر انہوں نے تحقیق کی وہ ہارمون یعنی انسولین سسٹمز کے انسانوں جیسے فیچرز رکھتے ہیں، جو دونوں میں غذائیت، یاداشت اور رویوں کے ارتقا میں مددگار ثابت ہوئے، مگر سی سلگ میں یہ افعال اکٹھے رہے، جبکہ انسانوں میں یہ جزوی طورپر خودمختار ہوگئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ ابھی تعین کرنا باقی ہے کہ انسانوں میں فوڈ کوما ماضی کے ارتقائی عمل کا حصہ ہے یا یاداشت کی تشکیل کا ایک اہم حصہ، مگر یہ بات پہلے ہی ثابت ہوچکی ہے کہ انسانوں سمیت متعدد جانداروں میں نیند طویل المعیاد یادوں کو ذخیرہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔