ان کا خیال تھا کہ کھانے کے بعد سستی یا غنودگی کا تجربہ بھی اس غذا کے حوالے سے یاد کو محفوظ کرنے کا ملتا جلتا ذریعہ ہوسکتا ہے جو مستقبل میں ذہن میں ابھر سکتی ہے، کیونکہ یادگار کھانا ہمیشہ ذہن میں زندہ رہتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر ریسرچ جرنل سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل رواں سال کے شروع میں امریکا کے اسریپپس ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ انسانوں سمیت مختلف جانداروں میں سامنے آنے والا یہ رویہ عندیہ دیتا ہے کہ اس حوالے سے ضرور کچھ خاص ہے۔
محققین کے خیال مں انسانوں سمیت دیگر جانداروں میں ایک مخصوص سگنل بلٹ ان ہوتے ہیں جو بھوکا ہونے پر انہیں بیدار اور الرٹ رکھتے ہیں۔
یہ سگنل لوگوں کو خوراک کی تلاش میں مدد دیتے ہیں مگر جب کوئی پیٹ بھر کر کھالیتا ہے تو یہ سگنل غائب ہوجاتے ہیں اور اس کی جگہ تھکاوٹ اور غنودگی لے لیتی ہے۔
کچھ ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ کھانے کے بعد دوران خون میں آنے والی تبدیلیاں ہیں، کیونکہ کھانے کے بعد چھوٹی آنت میں دوران خون ڈرامائی حد تک بڑھ جاتا ہے۔
جب معدے میں خون کا دورانیہ ہاضمے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بڑھتا ہے تو دماغ کی جانب یہ شرح سست ہوجاتی ہے جس سے دماغی غنودگی محسوس کرنے لگتا ہے۔
ماضی میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ چند مخصوص غذائیں دیگر کے مقابلے میں زیادہ غنودگی طاری کرتی ہیں۔
اسی طرح 2018 کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ سبزیوں اور زیتون کے تیل وغیرہ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، انہیں کھانے کے بعد اس طرح کی غنودگی کا سامنا کم ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ صحت بخش غذا دن میں غنودگی کا امکان کم کرتی ہے جبکہ زیادہ چربی یا کاربوہائیڈریٹ والی غذاﺅں سے جسمانی گھڑی کا نیند کا ردہم متاثر ہوتا ہے جس سے غنودگی طاری ہونے لگتی ہے۔