یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ڈیوک یونیورسٹی کی تحقیق میں درمیانی عمر کے سیکڑوں افراد کی چلنے کی رفتار کا تجزیہ کرتے ہوئے ان نتائج کا موازنہ متعدد جسمانی اور نفسیاتی پہلوﺅں کے ساتھ کیا۔
طبی ماہرین عرصے سے چلنے کی رفتار کو بزرگ افراد کی دماغی اہلیت کے فوری اور قابل اعتبار جائزے کے لیے استعمال کررہے ہیں مگر یہ اب تک معلوم نہیں تھا کہ اس سے درمیانی عمر میں دماغی صحت کے بارے میں جاننا بھی ممکن ہے۔
درحقیقت یہ اتنا واضح ہے کہ محققین نے کہا ہے کہ چلنے کے ٹیسٹ کے ذریعے ڈیمینشیا یا دماغی تنزلی کی تشخیص کرنا بھی ممکن ہے۔
جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع تحقیق میں 45 سال کی عمر کے 904 رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں اور ان میں سست روی اور تیزرفتاری سے چلنے والوں کے 16 آئی کیو پوائنس کے فرق کو دریافت کیا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ سست روی سے چلنے والے جسمانی سرگرمیوں جیسے ہاتھوں کی گرفت کی مضبوطی اور دماغی ٹیسٹوں میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا جو کہ ناقص صحت کی بھی علامت ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سست روی سے چلنے والے افراد کا بڑھاپے کی جانب سفر بھی تیز ہوجاتا ہے جبکہ ان کے پھیپھڑے، دانت اور مدافعتی نظام بھی تیز چلنے والوں کے مقابلے میں کمزور ثابت ہوئے۔
تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ جینیاتی عناصر ممکنہ طور پر چلنے کی رفتار، دماغی گنجائش اور نفسیاتی صحت کے درمیان تعلق کی وضاحت کرسکتے ہیں یا آسان الفاظ میں بہتر دماغی صحت جسمانی سرگرمیوں کی جانب بھی راغب کرسکتی ہے، جس سے چلنے کی رفتار بہتر ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جو چیز چونکا دینے والی ہے کہ ان افراد کی عمریں 45 سال تھیں اور وہ مریض نہیں تھے جن میں اس طرح کے تجزیے کیے جاتے ہیں۔
ان رضاکاروں کے ایم آر آئی ٹیسٹوں سے ثابت ہوا ہے کہ آہستگی سے چلنے والوں کا دماغ اصل عمر سے زیادہ بوڑھا نظر آتا ہے اور وہ چہرے سے بھی زیادہ عمر کے نظر آتے ہیں۔
محققین کے مطابق صحت اور دماغی صحت کے درمیان طرز زندگی کے عناصر کا انتخاب اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے آثار جوانی میں نظرآجاتے ہیں کہ کون درمیانی عمر میں سست روی سے چلنے کا عادی ہوسکتا ہے۔