آصف منور کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے ہے اور وہ سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ کی جانب سے منعقدہ معلومات تک رسائی (آرٹی آئی) کا ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ مختلف سرکاری محکموں سے معلومات کے حصول بالخصوص اقلیتوں کے لیے مختص کوٹے پر ہونے والی بھرتیوں سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں، معلومات کے حصول کے بعد وہ اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو مختلف محکموں میں خالی اسامیوں اور ان پر ہونے والی بھرتیوں کے طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہیں۔
پاکستاان میں معلومات تک رسائی کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری محکمے سے تحریری طور پر معلومات مانگ سکتا ہے اور اس کے لیے شہری سرکاری محکمے کو ان معلومات کے حصول کے اغراض و مقاصد بتانے کا پابند نہیں ہیں، معلومات کے لیے تحریری درخواست دینے کے بعد 14 دن تک جواب موصول نہ ہونے کی صورت میں شہری کو متعلقہ انفارمیشن کمیشن سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی رکن عظمٰی بخاری بھی معلومات کے حصول کے لیے باقاعدگی سے ان قوانین کا استعمال کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت مختلف اداروں کو معلومات کے لیے درخواستیں دیں لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں ملا، حال ہی میں انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے استعمال پر ہونے والے اخراجات کی تفصیل مانگی تھی جو انہیں فراہم نہیں کی گئیں۔
عظمٰی بخاری نے رواں سال 25 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں معلومات تک رسائی کے قوانین پر بحث کے لیے تحریک التوا بھی جمع کرائی تھی تاہم ان کے مطابق اسے اسپیکر کی جانب سے ان کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر مسترد کردیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ جو حالیہ حکمران دعویٰ کرتے تھے کہ وہ معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت شفافیت لائیں گے وہ اب نہ صرف شہریوں سے بلکہ اراکین اسمبلی سے بھی معلومات چھپاتے ہیں۔
قومی اسمبلی نے مشرف دور میں منظور شدہ ’رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002‘ کو تبدیل کرتے ہوئے ’دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017‘ پاس کیا تھا، جس کے تحت شہری تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں، اسی طرح خیبرپختونخوا میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 نافدالعمل ہے۔
اٹھاریوں ترمیم میں پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اے کو شامل کیا گیا جس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفاد عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کرسکتا ہے۔
پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم کہتے ہیں کہ عموما شہری اپنے علاقوں میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں یا سرکاری محکموں میں ہونے والی بھرتیوں سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ان قوانین کو استعمال کرتے ہیں جبکہ سماجی تنظیمیں سرکاری محکموں کو ملنے والے بجٹ اور اس کے استعمال سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ان قوانین کو استعمال کرتی ہیں۔
معلومات تک رسائی سے متعلق قانون سازی کے باوجود سرکاری ادارے شہریوں کو معلومات کی فراہمی سے گریزاں ہیں جبکہ حکومت ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے قائم کردہ انفارمیشن کمیشن کو مضبوط بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔