ظاہر ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اس راستے پر چلنے کے لیے اپنی اپنی وجوہات ہیں اور وزیرِاعظم کو عہدے سے ہٹانے کے علاوہ ابھی تک بہت سی باتوں کی وضاحت نہ کرنے کے اپنے اپنے اسباب بھی ہیں۔
حتیٰ کہ حالیہ دنوں میں نئے انتخابات کے لیے لگائے جانے والا نعرہ بھی اس کمزور اتحاد کو ایک ٹھوس وجود میں نہیں بدل سکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات سے متعلق اپنے مطالبات پر زیادہ زور دے رہی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی مرکز میں بطور اپوزیشن جماعت اور سندھ میں حکمراں جماعت کے اپنے کردار کا توازن برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) والوں کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے اور اس جماعت سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مزید پُرخطر کھیل کھیلے، بالکل مولانا کی طرح جو اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ رواں ماہ لاڑکانہ میں ہونے والی شکست کا جائزہ لے تاکہ اس جماعت کو اندازہ ہوسکے کہ اگر مستقبل قریب میں انتخابات ہوئے تو انہیں کن مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اب جبکہ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کرنے کی مقررہ تاریخ میں بس چند دن ہی رہ گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کے مطالبات میں کوئی ایک بھی مطالبہ ایسا نہیں نظر آتا جس میں قبل از وقت انتخابات اور وزیرِاعظم کے استعفیٰ کا ذکر نہ ہو۔ اور یوں اس طرح اپوزیشن کے مقصد کو تقویت ملتی ہے۔ درحقیقت ابتدا سے ہی یہ خیال کیا گیا تھا کہ مختلف جماعتوں کے حامیوں کو درالحکومت میں یکجا کیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ حالات کس جانب جاتے ہیں۔
یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں اپوزیشن اپنے یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ ناکامی بالکل بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیرِاعظم کی جانب سے مارچ کی کہانی کو جس طرح مختصر کرنے پر زور ڈالا گیا ہے اس سے شاید کسی قسم کے فوری نتائج حاصل نہ ہوسکیں۔ لڑائی میں سنسنی کے طلب گاروں کو آنے والے دنوں میں شاید ان کے مطلب کی خبریں مل جائیں۔
یہ مضمون 25 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔