ارادوں کا ایک زبردست ٹکراؤ ہونے کو ہے۔ مودی جبر کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور اقتصادی مراعات اور نئے شراکت داروں کے ساتھ سیاسی رعایتوں کے ذریعے کشمیریوں کی وفاداری خریدنے کی کوشش کریں گے کہ شاید کشمیر میں تحریک ٹھنڈی پڑجائے گی۔ اگر مودی کامیاب ہوجاتے ہیں تو پاکستان کو پیچھے ہٹنا ہوگا اور اپنی حکمتِ عملی پر دوبارہ نظر ثانی کرنا ہوگی۔ حکمتِ عملی میں کشمیری عوام کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔
لیکن اگر مودی آزادی سے متعلق کشمیری آرزوؤں کی لہر کو روکنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی ردِعمل ضرور دیکھنے کو ملے گا۔ یا تو بدترین انسانی بحران کا سامنا ہوگا جس میں سیکڑوں، ہزاروں ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، یعنی ایسی صورتحال پیدا ہوجائے گی جس سے خطے میں عدم استحکام بڑھے گا اور بھارت کا ابھار خطرے میں پڑ جائے گا۔ یا پھر بھارت کو کشمیریوں کی خواہشات تسلیم کرنا پڑیں گی۔ بدلے میں ابھرتے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات جیسی کوئی چیز مل جائے تو بھارت کو اپنی پالیسی بدلنے کی ٹھوس وجہ بھی دستیاب ہوگی۔
جب تک پاکستان خود کو دنیا میں نہیں ابھارتا تب تک تنازعے کے حل کے لیے پاک بھارت تعلقات اہم عنصر ثابت نہیں ہوں گے کیونکہ اس وقت بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان سے اچھے تعلقات میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جبکہ پاکستان یہ سمجھ رہا ہے کہ ناساز تعلقات سے اسے کوئی نقصان نہیں ہے۔ یہ سوچ ہمارے اپنے اور کشمیریوں کے لیے منفی اسٹیٹس-کو کا باعث بنے گی۔
اہم نکتہ یہی ہے کہ کشمیر کے حل کا بوجھ جتنا زیادہ پاکستان کے سر پر ہے اتنا ہی زیادہ بھارت کے سر پر بھی ہے۔ جدوجہدِ کشمیر درحقیقت جدوجہدِ پاکستان ہے۔
یہ مضمون 29 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔