82 فیصد سول سرونٹس نے بتایا کہ وہ Efficiency and Disciplinary Rules کی آگاہی رکھتے ہیں، قریب 63 فیصد سول سرونٹس کے نزدیک ان اصولوں کو کسی بھی قسم کی بدعنوانی روکنے کے لیے وضح کیا گیا ہے تاہم محض 44 فیصد ہی اسے کرپشن کی روک تھام میں مددگار قرار دیتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
تحقیق میں بیوروکریسی کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز دی گئی ہیں۔
- فیصلہ سازی سے متعلق چیلنجز کو تسلیم کیا جائے۔
- بیوروکریسی کی قیادت اور نیب کے درمیان حریفانہ کشمش کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے دونوں کے درمیان پائیدار اور باہمی احترام کے حامل مذاکرات کی ضرورت ہے۔
- عدالتی نگرانی لازمی ہے لیکن سول سرونٹس کی ذاتی حیثیت میں تذلیل نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی اس سے فیصلہ سازی کا ماحول بہتر بنانے میں کوئی مدد حاصل ہوتی ہے۔
- ماتحت افسران کی میڈیا میں غلط عکاسی کو روکنے کے لیے بیوروکریسی کی قیادت کے پاس باضابطہ رہنما اصول دستیاب ہونے چاہئیں۔
- بیوروکریسی میں موجود فیصلہ سازوں کو سیاسی ’بڑوں‘ کے ناجائز اثر و رسوخ سے محفوظ رکھنے کے لیے کوششیں جاری رکھی جانی چاہئیں۔
- فیصلہ سازی کے عمل میں تعطل کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔
- ان نکات میں ایک یہ نکتہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ داخلی ضابطہ اخلاق اور نظم و ضبط کے طریقہ کار کو سختی کے ساتھ نافذ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
- سول سرونٹس کو لاحق خوف کے پیچھے دیگر محرکات جیسے احد چیمہ اور فواد حسن کی گرفتاری، بریگیڈئیر اسد منیر کی خودکشی اور سول سرونٹس کے خلاف متعدد کیسز شامل ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ چونکہ (نیب اور ایف آئی اے کی جانب سے) متعدد افسران کو ہراساں کیا جا رہا ہے اس لیے بیوروکریسی موجودہ احتسابی مہم کے باعث خوف کا شکار ہے۔ (نیب چیئرمین نے اس تاثر کو غلط قرار دیا)، لیکن ایوب، یحییٰ، بھٹو اور ضیاالحق حکومتوں کی جانب سے بیوروکریسی کو پاک صاف کرنے کے لیے جو کوششیں کی گئیں تھیں، انہیں بیورکریسی اب تک بھولی نہیں ہے۔
چونکہ اس تحقیق میں اچھا لٹریچر ریویو اور فیصلہ سازی کے عمل پر سودمند مباحثہ شامل ہے اس لیے سول سرونٹس، پبلک ایڈمنسٹریشن کے طلبا اور تبصرہ نگار اس تحقیق سے معقول فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
اس پالیسی مقالے میں ہچکچاہٹ کے پیچھے چھپی ایک اہم وجہ کا تذکرہ نہیں ملتا، وہ ہے گرتے ہوئے تعلیمی معیارات اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی رپورٹس کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے سول سروسز کو دستیاب ٹیلنٹ کے معیار میں گراوٹ۔ شاید اب سول بیوروکریسی کی رِٹ کی کمزوری کے حوالے سے سروے کروانے کی بھی ضرورت ہے۔
داخلی عناصر کی گنجائش نکالنے کے باوجود بھی یہ تحقیق بیوروکریسی کے خوف کو ختم کرنے کے لیے ایک مضبوط کیس پیش کرتی ہے کیونکہ انتظامی جمود قلیل عرصے کے اندر ہی پورا نظام دھرم برم کردیتا ہے۔
مفاد عامہ سے متعلق بیوروکریسی کی بے حسی پر شہری بھلے ہی شکایات کرتے ہوں لیکن ایک مؤثر بیوروکریسی اور ایماندار افسران کے تحفظ کی گارنٹی کے بغیر ملک کا نظام چلانا مشکل ہوجاتا ہے، ایسے ایماندار افسران جو بالخصوص اپنے سیاسی باسز کو درست مشورہ دے سکتے ہوں۔
یہ مضمون 31 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔