لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔
لکھاری سابق سول سرونٹ ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے حال ہی میں بیورو کریسی کو اپنے تبدیلی کے ایجنڈے کے نفاذ کا اہم ستون قرار دیا۔ انہوں نے اسلام آباد میں اپنے مشیران کے ہمراہ سینیئر افسران سے خطاب کیا اور ان سب چیزوں کا وعدہ کیا جو افسران سننا چاہتے تھے۔

انہوں نے نیب کی جانب سے بلاوجہ ہراساں کیے جانے اور سروس کو غیر سیاسی کرنے کا وعدہ کیا اور تعیناتی کی کم سے کم مدت مقرر کرنے کے فوائد کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے افسران سے 2 سال ان کا ساتھ دینے کی درخواست کی جس کے بعد انہیں لگتا ہے کہ حکومت کی مالی حالت اتنی مضبوط ہوجائے گی کہ انہیں ایک پُرکشش تنخواہوں کا پیکج دے سکے۔

انہوں نے گزشتہ سالوں میں فراخ دل تنخواہوں کی زبردست مثالیں دیں جب ان کے مطابق ان کے والد کی تنخواہ ہر ماہ ایک گاڑی خریدنے جتنی تھی جبکہ ایک وفاقی سیکریٹری اپنی تنخواہ سے 70 تولہ سونا خرید سکتا تھا۔ انہوں نے درست طور پر 60 کی دہائی کی بیورو کریسی کی کارکردگی اور مؤثر ہونے کی تعریف کی۔ کیونکہ میں 60 کی دہائی میں بیورو کریسی کا رکن تھا اور چنانچہ اس حوالے سے جانبدار ہوں، اس لیے میں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ ان کے اس خیال کی بنیاد ان کے کزنز ہیں جو بیورو کریسی کے نہایت متاثر کن ارکان تھے۔

جو بھی کچھ انہوں نے کہا وہ بیورو کریسی کے لیے سننے میں تو اچھا ہے مگر نتائج ان کے عمل پر منحصر ہوں گے۔ مگر ابتدائی علامات حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ ان کی تقریر کے صرف ایک دن بعد ہی راجن پور اور چکوال کے ڈپٹی کمشنروں کو حکامِ بالا کا حکم نہ ماننے پر شو کاز نوٹس جاری کیے جانے کی خبر آئی جب ممکنہ طور پر عمران خان کے سیاسی اثر و رسوخ ختم کرنے کے وعدے سے متاثر ہو کر انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی جانب سے ایسے رویے کی مخصوص مثالیں دیں۔

مزید پڑھیے: بیوروکریسی میں اصلاحات کی ضرورت

یہ واضح ہے کہ جوش میں آکر ڈپٹی کمشنروں نے اپنے خط کی نقل ہر کسی کو ارسال کردی جو تکنیکی طور پر درست نہیں ہے۔ مگر شاید صورتحال کو بہتر انداز میں سنبھالا جا سکتا تھا اگر حکومت نے انہیں پوشیدہ طور پر ڈانٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا خفیہ اقدام نہ اٹھایا ہوتا۔

چنانچہ حکومت ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی سے وضاحت بھی طلب کرسکتی تھی تاکہ معاملات منصفانہ معلوم ہوں۔ مگر جو ایکشن لیا گیا اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے جیسے کہ افسران کی شکایات درست نہیں تھیں۔ معاملات سے یوں نمٹنے کے سبب افسران کے مورال پر پانی پڑ جاتا ہے جس سے عمران خان کے ان سے اپنے ہی خطاب کی نفی ہوتی ہے۔

اسی طرح نیب کے چیئرمین سے بس یہ درخواست کردینا کہ جن افسران کی شکایات موصول ہوں ان سے نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے، یہ کافی نہیں ہوگا کیونکہ نیب کی بیورو کریسی کچھ قواعد و ضوابط کی پیروی کر رہی ہے۔ جب تک ان قواعد و ضوابط کو تبدیل نہیں کیا جاتا تب تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

اب باری آتی ہے میڈیا کی، جس کا کاروبار ہی افسران کے مبینہ غلط رویے کی تفصیلات پر بحث کرنے سے چلتا ہے اور اس میں 'ملزم' افسران کو صفائی کا موقع دیے بغیر ان کے نام میڈیا میں پیش کیے جاتے ہیں۔ صرف ایک بے قصور افسر کا میڈیا ٹرائل بھی ان کی شہرت داغدار کردیتا ہے، انہیں ان کے خاندان اور دوستوں کے سامنے رسوا کر دیتا ہے اور پوری فورس کے مورال پر اثرانداز ہوتا ہے۔ میڈیا شاید ہی کبھی ان کے کسی اچھے کام پر روشنی ڈالتا ہو۔ حکومتی افسران کے پاس اتنی سہولت، روابط اور وسائل نہیں ہوتے کہ وہ سیاستدانوں کی طرح پریس کانفرنس اور ٹاک شوز کے ذریعے اپنا دفاع کرسکتے ہوں، چنانچہ بیورو کریسی کے مورال کی خاطر میڈیا کو ایک ضابطہ اخلاق کی تیاری اور نفاذ کرنا چاہیے۔

انتظامی اصلاحات کی بات کریں تو اس ملک میں ہر آنے والی حکومت اسے اپنے ایجنڈے کے بنیادی حصے کے طور پر شامل کرتی ہے اور پی ٹی آئی نے بھی یہی کیا ہے۔ اوسطاً یہ مشق ہر 3 سال بعد کی جاتی ہے۔ پاکستان کے قیام سے اب تک تقریباً 26 نامور کمیشن، ٹاسک فورسز اور ایک شخص پر مبنی اسکواڈ تشکیل دیے گئے ہیں تاکہ بہتر حکمرانی کو یقینی بنایا جاسکے۔ جہاں گزشتہ سالوں میں انتظامی اصلاحات کے کمیشنوں کی سربراہی برطانوی افسران کرتے تھے، وہاں 1958ء سے ان کی قیادت جی احمد، جسٹس اے آر کارنیلیئس، خورشید حسن میر، جسٹس انوار الحق، جسٹس دراب پٹیل، راجہ ظفر الحق، حامد ناصر چٹھہ، فخر امام، ڈاکٹر شاہد امجد، جنرل نقوی اور ڈاکٹر عشرت حسین جیسے لوگوں نے کی ہے۔ مگر ان کمیشنوں کا اثر ان کے قیام کے مقاصد کے الٹ رہا ہے۔ 1947ء سے اب تک گورننس اور ریاستی عملداری بتدریج گر ہی رہی ہے۔

مزید پڑھیے: بیوروکریسی: خدمت عوام کی یا اپنی؟

خان صاحب نے درست طور پر بیورو کریسی کے خدشات کی نشاندہی کی اور انہیں حل کرنے کا وعدہ کیا۔ ان میں نیب کی جانب سے ہراساں کیا جانا، سیاسی مداخلت، غیر یقینی مدتِ ملازمت، کم تنخواہیں اور وزارتوں اور محکموں کے بے اختیار سربراہان شامل ہیں۔ زیادہ تر انتظامی اصلاحات، خاص طور پر اگر یہ وسیع تر اور ہمہ گیر ہوں، تو ان کی وجہ سے کافی غیر یقینی اور افواہیں جنم لیتی ہیں۔ اکثر اوقات نتیجہ خدمات کی فراہمی کے معیار اور ریاستی عملداری میں مزید کمی کا ہی نکلتا ہے۔ ایک حالیہ مثال مشرف کی جانب سے 2002ء میں لائی گئی تباہ کن اصلاحات کا ہے۔

بجائے اس کے کہ ہم بڑی انتظامی اصلاحات پر غور و فکر میں اپنا وقت ضائع کریں، ہمیں کرنا یہ چاہیے کہ بیورو کریسی میں پہلے سامنے موجود خامیوں کو سدھاریں۔ اس کے لیے ہم اگلے 2 سال تک ایک پُرعزم کوشش کرسکتے ہیں تاکہ بیورو کریسی کو ازسرِ نو استوار کیا جاسکے۔

جب یہ خامیاں دور ہوجائیں اور پھر بھی یہ محسوس ہو کہ سسٹم میں خامیاں موجود ہیں، تب شاید انتظامی اصلاحات کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں