عراق کے اندر شیعہ دھڑے اور حشد الشعبی بھی اختلافات کا شکار ہیں۔ وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے حشد الشعبی سمیت تمام ملیشیا گروہوں کو عراقی کنٹرول میں لانے کا حکم جاری کیا جس پر 31 جولائی تک عمل درآمد ہونا تھا لیکن اس حکم نامے پر عمل نہیں ہوسکا۔ حشد الشعبی نے اپنی فضائیہ بھی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا جس پر بااثر عراقی شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے شدید ردِعمل دیا اور کہا کہ عراق دوبارہ بدمعاش ریاست بن جائے گا۔ مقتدیٰ الصدر نے تہران کا دورہ کرکے ایرانی سپریم لیڈر سے بھی ملاقات کی اور تحفظات سے آگاہ کیا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے عراقی مظاہرین کے حق میں بیان دے کر اشارہ دیا کہ امریکا بھی عراق میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ عراقی حکومت مظاہرین کے جائز مطالبات پر توجہ دے۔
رہی سہی کسر اسرائیلی وزیرِ خارجہ اسرائیل کاتز نے ٹوئیٹ کرکے پوری کردی۔ اسرائیل کاتز نے لکھا کہ وقار اور آزادی کے لیے احتجاج کرنے والے عراقی عوام سے اسرائیل کو ہمدردی ہے۔ ایران کے پاسدارانِ انقلاب اور قاسم سلیمانی کے ہاتھوں عراقی مظاہرین کے قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ عراق ایک طویل اور شاندار تاریخ کا حامل ہے اور اسرائیل میں رہنے والی عراقی یہودی اب بھی اپنے عراق میں قیام کو پیار سے یاد کرتے ہیں۔
ایران اور وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے خلاف عراقی عوام کے مظاہروں کو پہلے ہی بیرونی مدد اور حمایت کے اشارے مل چکے ہیں، ان حالات میں ایران نواز ملیشیا حکومت کو برطرف کرکے کنٹرول خود بھی سنبھال سکتی ہے۔ لیکن ایسا کوئی بھی قدم مشرقِ وسطیٰ اور عراق کو نئے بگاڑ کی طرف لے جائے گا۔
سعودی عرب تیل تنصیبات پر حملے کا بدلہ بھی لینا چاہتا ہے لیکن مکمل جنگ بھی نہیں چاہتا۔ایران بھی کھلی جنگ سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکا ایران پر جنگ مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اس صورت میں خلیج میں اس کے اتحادی ایرانی نشانے پر ہوں گے اور اتحادی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔
اس سب کے باوجود مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر بیٹھا ہے۔ عراق میں امریکی فوجیوں کے خلاف ایران نواز ملیشیا کی کوئی کارروائی، حزب اللہ کا اسرائیل پر حملہ، اسرائیل کا ایران کے اتحادی گروہوں پر شام، لبنان یا عراق میں حملہ نئی جنگ چھیڑ سکتا ہے۔