’مولانا کو اسمبلی لانا اتنا خطرناک نہ تھا جتنا خطرناک وہ باہر ہوگئے‘
مولانا فضل الرحمٰن کو سمجھنے میں ایک مرتبہ پھر غلطی کی گئی ہے، یہ غلطی حکمرانوں سے تو ہوئی ہے، مگر کچھ اپنے بھی شامل ہیں۔
شیخ رشید اکثر پیش گوئیاں کررہے ہوتے ہیں، شاید اسی لیے میڈیا میں چھائے رہتے ہیں۔ لیکن وہ پیش گوئی کرتے ہیں وہ سچ تو ہوتی ہیں مگر پوری نہیں۔ وہ کہتے ہیں مولانا کے آزادی مارچ کا فائدہ 2 بڑی جماعتوں نے اٹھایا ہے جبکہ مولانا خالی ہاتھ ہی جائیں گے۔
اس جملے کا پہلا حصہ تو مکمل سچ ہے لیکن دوسرے حصے میں یا تو سچ کو چھپایا گیا ہے یا پھر مولانا کو سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے کیونکہ مولانا سیاسی کھیل کے ایسے کھلاڑی ہیں جو ہر گیند پر چوکے چھکے نہیں مارتے بلکہ آخری گیند تک باؤلر ان سے خوف زدہ ہی رہتا ہے کہ وہ کب کونسا شاٹ کھیلیں گے۔
مولانا کے قریبی حلقے الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کسی کی خواہش پر الیکشن میں ہرایا گیا۔ مولانا جس سیاسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اس کا ایک مسلک ہے۔
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
چوہدری شجاعت کے مٹی پاؤ فلسفے پر یقین رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ مولانا کو قومی اسمبلی میں لانا اتنا پُرخطر نہ تھا جتنا خطرناک وہ باہر رہ کر ہوگئے ہیں۔