کراچی میں تو اکثر و بیشتر سمندری ہوائیں فضا کو صاف کردیتی ہیں لیکن لاہور میں ٹھنڈی ہوا کے دباؤ کی وجہ سے آلودہ ہوا فضا میں پھنس جاتی ہے۔ لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں کہ ہم ایسی ہوا میں سانس لے رہے ہیں جو کرہ ارض کی بدترین ہواؤں میں شمار ہوتی ہے۔
تھر میں کوئلے سے چلنے والا توانائی کا منصوبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم گلوبل وارمنگ اور فضا میں کاربن کے اخراج سے ہونے والے نقصانات پر عالمی اتفاق رائے سے کتنا دُور ہیں۔ مفاد پرست سیاست نے ہماری آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی ہے کہ دورِ حاضر کے بڑے مسائل پر ہماری نظر ہی نہیں جاتی۔
لہٰذا جب تک ہم اپنے لیڈران کو سب کے سامنے جوابدہ نہیں بنائیں گے تب تک حالات جوں کے توں رہیں گے۔
ہمیں اب یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مشرقی پڑوسی کے ساتھ باہمی تعاون کی بنیاد پر بات کرنی ضروری ہے، تاکہ سرحد کی دونوں جانب صورتحال بہتر ہوسکے۔ پاکستانی اور بھارتی بچوں کو صاف ہوا کی فراہمی کو مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
مجھے تو خدشہ ہے کہ جب تک اسموگ کے باعث مرنے والوں یا تشویشناک امراض کا شکار بننے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوجاتا تب تک سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی جانب سے تحرک بھی نہیں لیا جائے گا۔
جیسے ہی غبار تھمے گا تو زندگی پھر سے معمول پر آنے لگی گی اور اس معاملے پر سب کی دلچسپی ماند پڑجائے گی۔ یقیناً تجاویز کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں گی لیکن اگلے اسموگ سیزن تک کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
یہ مضمون 23 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔