irfan.husain@gmail.com
[email protected]

حال ہی میں جب اسلام آباد سے لاہور جانا ہوا تو راستے میں میلوں دُور تک غبار کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں منہ پر ماسک چڑھاتا، یہ غبار میرے گلے میں خراش پیدا کرچکا تھا۔

میں کئی ہفتوں سے لاہور میں اسموگ کی صورتحال سے متعلق صرف پڑھ ہی رہا تھا لیکن اس کا سامنا مجھے پہلی مرتبہ ہورہا تھا۔ پاکستان میں حسبِ روایت جب کوئی مسئلہ جان کو آجاتا ہے تب ہی ہمیں ہوش آتا ہے۔ اداریوں اور کالموں میں حالات کا رونا رویا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کو جہاں موقع ملتا ہے وہاں ایک دوسرے پر الزامات کے نشتر چلاتے ہیں اور پھر حکومت کی جانب سے مسئلے کے حل کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔

مگر جیسے ہی مسئلے کی شدت میں تھوڑی سی بھی کمی آتی ہے تو حالات پھر سے معمول پر آنے لگتے ہیں اور تب تک میدان میں موجود تمام تر کھلاڑیوں کی توانائی بھی جواب دے جاتی ہے کیونکہ انہیں اپنی توانائی خرچ کرنے کی عادت جو نہیں ہوتی۔

اسموگ کے سالانہ بحران، جی ہاں یہ بحران ہی ہے، کے معاملے میں بھی مذکورہ مرحلہ دہرایا جاتا ہے اور پھر سب کے سب آرام و سکون کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور مسئلے کے حل کے لیے کسی معجزے کا انتظار کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتہ ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہونے والے تجزیاتی مضمون میں احمد رافع نے ہمیں اس مسئلے سے متعلق بتائی جانے والی من گھڑت باتوں کو دفن کردیا ہے۔ یہاں پیش کیے جانے والے زیادہ تر اعداد و شمار اسی مضمون سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس مضمون میں عابد عمر کی رائے بھی شامل ہے۔

اسموگ سے متعلق جاری مباحثے سے شاید ایک ہی حوصلہ افزا پہلو برآمد ہوا ہے اور وہ ہے کم عمر افراد میں مسئلے سے متعلق شعور کا پیدا ہونا۔ اسموگ کے باعث بار بار اسکول بند رکھنے کی وجہ سے طلبا اپنی کلاسیں لینے سے محروم ہوجاتے ہیں، لہٰذا اب بچے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ماحولیاتی عناصر کی وجہ سے ان کی صحت اور تعلیم خطرے کی زد میں ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے نومبر اور جنوری کے درمیانی عرصے کو نیم سرکاری سطح پر اسموگ سیزن قرار دے دیا گیا ہے۔ پاکستانی سیاستدان اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کے لیے اسموگ کا ذمہ دار بھارتی کسانوں اور بھارت میں چاول کے بھوسے کو لگائی جانے والی آگ کو ٹھہرا دیتے ہیں۔

لیکن یہ دو طرفہ مسئلہ ہے، کیونکہ ہمارے کسان بھی یہاں پر بھوسہ جلاتے ہیں۔ سرحد کی دونوں جانب بڑھتے اس مسئلے کی بڑی وجہ ہوا کے بدلتے رخ سے ہے: سردیوں میں مغرب سے آنے والی ہوائیں پاکستان میں بھارت کا دھواں بھی اپنے ساتھ لے آتی ہیں، لیکن ہوا کا یہ رخ جلد بدل بھی سکتا ہے۔

بھارت پر زرعی آلودگی کے الزامات لگانے کا کھیل کھیلتے ہوئے ہم نے ان دیگر عناصر پر اپنی آنکھوں موند لی ہیں جو اس مسئلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہماری فضا میں 80 فیصد آلودہ ذرات صنعت، ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبے کے پیدا کردہ ہیں۔

انڈیپنڈینٹ پاور پراجیکٹس اس آلودگی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، جن کی اکثریت کوئلے کا استعمال کرتی ہے۔ دوسری طرف ہم جو ایندھن درآمد کرتے ہیں اس سے بڑھ کر شاید ہی دنیا میں کوئی غلیظ ایندھن ہو۔ Euro II کے معیار پر اترنے کے بجائے ہم مسلسل ان پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں جو آلودگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

آلودگی سے بچوں، عمر رسیدہ افراد اور حاملہ خواتین کی صحت کو نقصان پہنچنے کے باوجود بھی ہم ملک میں بڑھتی آلودگی پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ آلودگی کس قدر انسانی صحت کے لیے مضر ہے لیکن پھر بھی مسئلے کو بھرپور عزم کے ساتھ حل کرنے کے بجائے ہم اپنا سر ریت میں چھپادیتے ہیں۔

مثال کے طور پر لاہور کی فضا میں جب آلودگی اپنے عروج پر ہوتی ہے اس دوران لاہور میں گزرا ہوا ایک دن سیگریٹ کا ایک پورا پیک پینے کے برابر ہے۔ سیگریٹ کی عادت چُھوٹے برسہا برس بیت گئے ہیں، اس لیے اتنی بڑی مقدار میں نیکوٹین قطعی طور پر میں اپنے جسم میں داخل نہیں کرنا چاہوں گا۔ خاص طور پر یہ مضر ہوا بچوں کو آسانی سے متاثر کرسکتی ہے۔ ان کی ذہنی اور جسمانی نمو کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور جب حاملہ خواتین اس زہریلی فضا میں سانس لیں گی تو یہ غبار رحم تک پہنچ جاتا ہے۔

The Pakistan Air Quality Initiative (پی اے کیو آئی) کی جانب سے پنجاب میں ہوا کا معیار جانچنے کے لیے متعدد آلات نصب کیے گئے۔ اس غیر سرکاری ادارے کی کوششوں کا خیر مقدم کرنے کے بجائے سرکاری افسران نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ان کے آلات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ معاملہ ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے آلات نصب کرے۔

تاحال ہم نے اس مسئلے کو صرف اور صرف لاہور اور پنجاب کے تناظر میں لیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے پاکستان کی ہوا زہریلی ہے۔ پی اے کیو آئی کے اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں لاہور کے ’Unhealthy days‘ (غیر صحت بخش دنوں) کی تعداد 187 تھی جبکہ کراچی میں یہ تعداد 152 اور اسلام آباد میں 86 رہی۔ تاہم 'Sensitive days' (حساس دنوں) کی تعداد کراچی میں 166 جبکہ لاہور میں 88 رہی۔

کراچی میں تو اکثر و بیشتر سمندری ہوائیں فضا کو صاف کردیتی ہیں لیکن لاہور میں ٹھنڈی ہوا کے دباؤ کی وجہ سے آلودہ ہوا فضا میں پھنس جاتی ہے۔ لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں کہ ہم ایسی ہوا میں سانس لے رہے ہیں جو کرہ ارض کی بدترین ہواؤں میں شمار ہوتی ہے۔

تھر میں کوئلے سے چلنے والا توانائی کا منصوبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم گلوبل وارمنگ اور فضا میں کاربن کے اخراج سے ہونے والے نقصانات پر عالمی اتفاق رائے سے کتنا دُور ہیں۔ مفاد پرست سیاست نے ہماری آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی ہے کہ دورِ حاضر کے بڑے مسائل پر ہماری نظر ہی نہیں جاتی۔

لہٰذا جب تک ہم اپنے لیڈران کو سب کے سامنے جوابدہ نہیں بنائیں گے تب تک حالات جوں کے توں رہیں گے۔

ہمیں اب یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مشرقی پڑوسی کے ساتھ باہمی تعاون کی بنیاد پر بات کرنی ضروری ہے، تاکہ سرحد کی دونوں جانب صورتحال بہتر ہوسکے۔ پاکستانی اور بھارتی بچوں کو صاف ہوا کی فراہمی کو مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

مجھے تو خدشہ ہے کہ جب تک اسموگ کے باعث مرنے والوں یا تشویشناک امراض کا شکار بننے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوجاتا تب تک سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی جانب سے تحرک بھی نہیں لیا جائے گا۔

جیسے ہی غبار تھمے گا تو زندگی پھر سے معمول پر آنے لگی گی اور اس معاملے پر سب کی دلچسپی ماند پڑجائے گی۔ یقیناً تجاویز کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں گی لیکن اگلے اسموگ سیزن تک کچھ بھی نہیں بدلے گا۔


یہ مضمون 23 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں