صد سالہ تاریخ کا امین 'اوم کنہیا لال کاٹیج'
پاکستان میں متنوع فنِ تعمیرات کی حامل ڈھیروں عمارتیں اور یادگاریں موجود ہیں جو تقسیمِ ہند سے پہلے کے زمانوں کی یاد تازہ کردیتی ہیں۔ ہند اسلامی اور مغلیہ طرزِ تعمیر سے لے کر گوتھک اور نیم کلاسیکی فنِ تعمیرات سے مزین عمارتیں اپنے اندر اپنے اپنے زمانوں کی یادیں سموئے ہوئے ہیں۔
گزرتے برسوں کے ساتھ چند عمارتوں کو تو تاریخی ثقافتی ورثے کی حیثیت بھی نصیب ہوئی لیکن فنڈز کی کمی کے باعث وہ عمارتیں ویران اور کھنڈر بنتی جا رہی ہیں، جن کی مرمت یا انہیں اصلی حالت میں برقرار رکھنے کا کوئی انتظام موجود نہیں۔
انہی عمارتوں میں سے ایک صوبہ سندھ کے شہر روہڑی کے مرکزی علاقے میں موجود اوم کنہیا لال کاٹیج ہے۔
نیوی پارک کے قریب ناکو چوک نامی چوراہے پر واقع یہ گھر تقریباً 100 سال پرانا ہے۔ 1930ء میں تعمیر کی جانے والی اس عمارت کو ’ست ماڑ‘ بھی پکارا جاتا ہے۔ (ست ماڑ سندھی زبان کے الفاظ ہیں جن کا مطلب ہے 7 منزلہ)۔
اس عمارت کے مالک دولت مند کاروباری اوم کنہیا لال تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ موجودہ پاکستان سے ہجرت کرکے چلے گئے۔ اب معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ گھر فروخت کیا تھا یا پھر ایسے بہت سوں کی طرح یونہی دے گئے تھے جنہوں نے افراتفری کے عالم میں اپنی جائیدادوں کو چھوڑ کر ہجرت کی۔