چونکہ ہمارا تعلق میڈیا سے ہے اور حکم ہے کہ ’میڈیا مثبت تصویر دکھائے‘، اس لیے ہم حکم کی تعمیل کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ گدھا اتنا گدھا بھی نہیں ہوتا کہ آنکھوں کے سامنے سارے مناظر منفی ہوں اور وہ مثبت تصویر پر یقین کرلے، مگر اپنی سی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟
ہم گدھوں سے کہیں گے ’گھبرانا نہیں ہے‘، یقین مانو گدھو! کم از کم ہم تمہیں یہ گدھا سمجھ کر نہیں کہہ رہے۔ یہ تو دیکھو کہ کھال کی وجہ سے تمہاری اہمیت کتنی بڑھ گئی ہے۔ اب یہ مت کہنا کہ ’اس اعتبار سے تو ہر پاکستانی بہت اہم ہے، بس فرق یہ ہے کہ ہماری کھال سے صرف ’ایجیاﺅ‘ بنتی ہے، اور پاکستانیوں کی کھال دیے جاﺅ دیے جاﺅ کہہ کر کھینچ لی جاتی ہے‘۔ ایسی باتیں کرو گے تو ہم تمہیں دولتی مار دیں گے۔ تمہیں تو فخر ہونا چاہیے کہ تم چینیوں کے درد کی دوا بن گئے ہو، ورنہ کل تک کہتے تھے:
دنیا ہمہ تن درد ہے، ہونے دو ہمیں کیا
ایسا بھی کوئی درد ہے ہم جس کی دوا ہیں
اب کہیں جواباً یہ شعر نہ سنا دینا،
’چین‘ سے کس کو رستگاری ہے
آج ہم کل تمہاری باری ہے
ویسے ہمیں یقین ہے کہ چینی تمہیں ناپید نہیں ہونے دیں گے، تم کوئی ایغور تھوڑی ہو، وہ غور کرکے تمہارے تحفظ کے لیے اقدامات کریں گے۔ ممکن ہے دنیا بھر سے گدھے جمع کرکے چین لے آئیں، جہاں تم بچے پر بچہ پیدا کرکے 'ون چائلڈ' پالیسی پر کڑھتے چینیوں کے دل جلاتے رہو۔
اس امکان کے باوجود اگر تم چینیوں سے بچنا چاہتے ہو تو اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ چین جاﺅ اور اپنی اپنی کھال اتار کر پیش کردو۔ بچنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی طور پر اعلان کردو کہ ہم گدھے نہیں خرگوش ہیں۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو کہہ دینا 'جب باقی گدھے اپنے گدھے ہونے کا اعتراف نہیں کرتے اور کوئی ان کے گدھا ہونے پر اصرار نہیں کرتا تو پھر ہم سے یہ تقاضا کیوں؟'