مگر چند مسائل ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ یہ کہ لوگوں تک اعلیٰ تعلیم کی رسائی کا سماجی و اقتصادی خوشحالی سے گہرا تعلق ہے۔ حکومت بار بار اس عزم کا اظہار کرچکی ہے کہ وہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں لانا چاہتی ہے جہاں میرٹ ہو اور سب کے لیے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔ مگر سرکاری یونیورسٹیوں کی فنڈنگ میں کٹوتی اس عزم سے متضاد ہے۔
امیر تو پاکستان میں ہمیشہ سے نجی یونیورسٹیوں یا پھر باہر سے تعلیم حاصل کرتا رہا ہے، لیکن معاشی طور پر کمزور طبقے کے لوگوں کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کا بڑی حد تک دار و مدار ریاست کی جانب سے تعلیمی اداروں کو دی جانے والی سبسڈیز پر ہی ہوتا ہے، اور اعلیٰ تعلیم کی فنڈنگ میں کٹوتی سے یہ لوگ براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔
اس کہانی کا ایک صنفی زاویہ بھی ہے۔ صحت، اگلی نسل کی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات، آمدن، دولت مندی و دیگر ایسے معاملات سمیت خواتین کی ملازمت اور تعلیم کے درمیان گہرا تعلق قائم ہے۔ فنڈنگ میں کٹوتیاں ہمیں ان فوائد سے بھی محروم کردیں گی۔
اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کسی بھی طور پر عام مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے غیر سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ کٹوتیاں نہ صرف معاشرتی مقاصد بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں اور خوشحال زندگی کی خواہشوں کو زک پہنچاتی ہیں۔
اس حکومت نے اعلیٰ تعلیم کی فنڈنگ میں کٹوتیاں کرکے جو بچت کی ہے اس کا کچھ حصہ ان منصوبوں کے لیے مختص کیا ہے جن کا مرکزی دھارے سے تعلق نہیں۔ یہ معاملہ بھی ایک پُرمغز مباحثے کا متقاضی ہے۔
یہ مضمون 13 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔