یہ سب سُن کر مستقبل کا مؤرخ ماضی کی دستاویزات ایک طرف پٹخے گا اور یہ کہتے ہوئے گھر کی راہ لے گا، 'چھڈو جی، دفع کرو، کوئی ہور کَم کریے'۔
کچھ دنوں بعد وہ ڈرائی کلینر کی دکان کھولے رسیدوں پر دھلے ہوئے کپڑوں کی واپسی کی تاریخ ڈال رہا ہوگا یا ہومیوپیتھ بن کر کسی مریض کے مرض کی ہسٹری جان رہا ہوگا۔
ایک امکان اور بھی ہے اور وہ یہ کہ کل کا مؤرخ کسی صنعت کار، جاگیردار یا سیاست میں سرمایہ کاری کرکے صنعتیں لگانے اور سیاسی جماعت کے نام پر اپنی جاگیر بنانے والے سیاستدان کے گھر جنم لے، یعنی وہ منہ میں سونے کا چمچا لے کر پیدا ہو اور چمچے میں چلغوزے رکھے ہوں۔ اس صورت میں وہ بچوں کی فیس، کمیٹی اور مکان کے کرائے جیسی فکروں سے آزاد ہوگا، لیکن پھر اس کے مسائل دوسرے ہوں گے۔
وہ سوچے گا کہ تاریخ کی تحقیق میں کئی سال لگانے میں کہیں میں خود تاریخ کا حصہ نہ بن جاؤں، چنانچہ فوری نام وری کے لیے کسی اخبار میں کالم لکھنے لگے گا، ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں ماہرِ تاریخ کی حیثیت سے جائے گا۔ اس سب سے جو وقت بچے گا اس میں مستقبل کا مؤرخ فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے افکار عالیہ پوسٹ اور ٹوئٹ کرنے کے بعد اتنا تھک چکا ہوگا کہ تاریخی واقعات کی تحقیق، جائزے اور تجزیے کے بجائے تاریخ بگاڑ کر بنائی جانے والی کوئی بھارتی فلم جیسے 'پدماوت ' دیکھے گا اور گانا 'نینوں والے نے چھیڑا من کا پیالہ' سُن کر خراٹے چھلکاتا ہوا سوجائے گا۔
چلیے مستقبل کے مؤرخ نے اگر ساری مصروفیات تج اور مجبوریوں سے بے نیاز ہوکر تاریخ لکھنے کی ٹھان ہی لی ہے تو خدشہ ہے کہ وہ سیاسی نعروں، سرکاری بیانات اور میڈیا کے رجحانات سے کنفیوز ہوکر خود بھی الجھے گا اور تاریخ کو بھی الجھا دے گا۔
مثال کے طور پر وہ 'شیر شاہ سوری ثانی' کی کارکردگی دیکھ کر یہی سمجھے اور لکھے گا کہ اصل شیر شاہ سوری کسی بادشاہ کا نامزد کردہ ہندوستان کا وزیراعلیٰ تھا، جو بس بادشاہ سے تبادلہ خیال اور افسران کے تبادلے کرتا تھا۔ اور یہ بھی اس کا خیال ہوتا تھا کہ وہ بادشاہ سے تبادلہ خیال کررہا ہے۔ اس تبادلے میں ایک طرف حکم ہوتا تھا اور دوسری طرف سرِ تسلیم خم۔ اسی طرح 'وسیم اکرم پلس' کے خطاب سے اسے مغالطہ ہوسکتا ہے کہ اصلی وسیم اکرم کو کوچ گود میں اٹھا کر پچ پر لاتا ہوگا، اور وسیم اکرم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر گھماتا اور باؤلنگ کرواتا ہوگا۔ پھر چھکا لگنے پر وسیم اکرم کی کمر ٹھونک کر کہتا ہوگا 'یہ وسیم اکرم کی بول کا کمال تھا کہ صرف چھکا لگا، ورنہ تو اَٹّھا یا دَسّا لگتا'۔