ساکھ کی بحالی کا کام شروع ہوچکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین سے تو یہ سوال پوچھا بھی جاچکا ہے کہ وہ ان لوگوں سے کس طرح نظریں ملائیں گے جنہیں ان سے چند توقعات وابستہ تھیں؟ ان کا جواب وہی رہا جس کی توقع کی جاسکتی تھی اور ایک ایسی تنظیم کے لیے فرسودہ رہا جو اب بھی پاکستان میں خواب دیکھنے والوں کے ایک خصوصی کلب کے نزدیک واحد امید ہے، ایسا کلب جس میں داخلہ گزرتے وقت کے ساتھ کم سے کم ہوتا چلا جارہا ہے۔
اگر ایمانداری سے بات کی جائے تو پیپلز پارٹی کی قیادت میں منظور ہونے والی 18ویں ترمیم ملکی سیاست میں تنازع کی وجوہات میں سے ایک قرار پاتی ہے۔ یہ ایسا تمغہ ہے جسے پیپلزپارٹی کبھی بھی ضرورت پڑنے پر اپنے سینے پر سجانا چاہے گی۔ مگر کچھ ایسی باتیں بھی اس جماعت کے ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں جن کا دفاع کرنے میں بلاول بھٹو زرداری کے لیے بہت ہی دشواری پیش آئے گی۔
انہی میں سے ایک ہے ان کی شہید والدہ کی لیگیسی۔ وہ جب سیاستدانوں اور ملک میں طاقت کے غیر سویلین مستقل دعوے داروں کے درمیان ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں عین اسی وقت منظرِعام سے رخصت ہوئیں۔
پختہ سوچ کی مالک محترمہ بینظیر بھٹو کہ جنہیں آج ہم دل سے یاد کرتے ہیں وہ ان حالات و واقعات کا ثمر تھیں جنہوں نے انہیں اقتدار کی خاطر سمجھوتوں کی راہ پر گامزن کردیا تھا۔ اس سفر پر چلنے کے لیے ان کے شوہر اور بلاول بھٹو زرداری کے استاد آصف علی زرداری نے زبردست مدد فراہم کی۔
پیپلزپارٹی طویل عرصے سے طاقت کے نمائندوں کے حلقے میں ویسی ہی قبولیت کی خواہاں رہی ہے جو مسلم لیگ (ن) کو حاصل رہی تھی۔ پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ (ن) جتنی ریٹنگ کی حامل جماعت میں بدلنے کا عمل اس وقت تیز ہوگیا جب آصف زرداری نے اس جماعت کی باگ ڈور سنبھالی۔ چند ایسے ٹھوس آثار موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کسی بھی وقت اس سانچے سے خود کو نکال سکتے ہیں جسے ان کے غیر معمولی شخصیت کے حامل والدین نے ان کے لیے چُنا تھا۔
تاہم ہم میں سے چند خواب دیکھنے والے بضد ہیں۔ وہ بلاول بھٹو زرداری کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے ہیں کہ وہ ویسا کردار ادا نہیں کر رہے جو ان کی والدہ کرتیں، حالانکہ اپنی سیاسی زندگی کے اس حساس موڑ پر وہ ممکنہ طور پر وہی کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے کام کرنے کے لیے دی گئی آوازوں پر لبیک کہنے کے بعد وہ کس طرح لوگوں کا سامنا کریں گے تو ان کے ذہن میں وہی پرانی راہ لینے کی سوچ آئی تاکہ پاکستان کے اقتداری تھیٹر میں اپنی موجودگی کی مدت بڑھائی جاسکے۔ انہوں نے پیپلزپارٹی سے جُڑی پرانی جذباتی لائن دہرا دی کہ، ہم نے پہلے بھی عوام کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں اور آگے بھی کرتے رہیں گے۔