لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

بدھ کو طویل خاموشی ٹوٹ گئی۔ وہ رابطہ لائن جس نے ابتدائی طور پر بہت سے لوگوں کے ساتھ بہت سارے وعدے کیے تھے وہ بحال ہوگئی۔ ایک طویل پُراسرار خاموشی کے بعد ایک ٹوئٹر ہینڈل میں پھر سے جان آگئی۔

اگرچہ یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ مریم نواز صاحبہ کے نام سے منسوب تھا لیکن اس پر ان کے مشہور والد کی تصویر لگی نظر آئی۔ مگر ان کے حامیوں نے یہ دیکھ کر بلاتاخیر ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کرلیا اور انہیں قیادت کا صحیح حقدار بھی ٹھہرایا۔

ہم تو سب ہی جانتے ہیں کہ ان کا یہ حق انہیں شریف خاندان میں ولی عہد کی حیثیت حاصل ہونے کے باعث درست قرار دیا جاتا ہے۔ یقیناً اپنے کیریئر کے اس اہم مرحلے کے دوران خاموشی کا جو سہارا لیا گیا وہ ایک بڑی مفید سیاسی چال ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ خاموشی محض اتفاق نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت معلوم ہورہی ہے۔ ان کی جماعت اس بات سے بخوبی آشنا ہے کہ اس خاموشی کی سرمایہ کاری سے زبردست منافع کمایا جاسکتا ہے۔

چونکہ ہم ایک بار پھر پاکستانی سیاسی چوراہے پر کھڑے ہیں ایسے میں زیادہ سے زیادہ خاموش رہنے کا موقع بھی حاصل ہوچکا ہے۔ ملک کا تمام تر سیاسی طبقہ اس سیلاب میں بہتا نظر آتا ہے جس نے بااختیار سویلین حکمرانی کے دشمنوں کا سارے بند توڑ دیے ہیں۔

وہ چند اعلیٰ ظرف رکھنے والے خالص افراد جو ہمیشہ ہی حقیقی جمہوریت قائم کرنے کی کوشش میں مصروفِ عمل رہے، وہ اب جارحانہ موڈ میں نظر آرہے ہیں۔ ایک طویل سوگ کا آغاز ہوچکا ہے اور دیکھنے اور سننے والوں میں شامل ہر ایک شخص کو اپنی حدود کا ایک بار پھر اندازہ لگانے میں وقت لگے گا۔

جو زیادہ تخیلاتی ذہن رکھتے ہیں، ان کے پاس اپنی کوششوں کو آزمانے کا اب بھی آخری موقع ہے۔ کئی پُرامید افراد اس حقیقت کا یہ اہم پہلو استعمال کرسکتے ہیں کہ صدمے پر چیخ و پکار کو اس سے پہلے کبھی اس قدر شدت کے ساتھ سنا نہیں گیا ہے۔

پاکستانی عوام میں بڑے پراسرار طریقے سے راتوں رات تبدیلی آچکی ہے جو مقبولِ عام دیسی طرز پر ضابطوں سے بھرپور حکمرانی پر صبر کیے رکھتے تھے۔

انہوں نے کسی نہ کسی طرح خود کو اس بات پر قائل کردیا ہے کہ یہ ملک، یہ قوم اور اس ملک میں موجود جمہوریت بااختیار اداروں سے اپنی موجودگی تسلیم کروانے کے سنہرے موقعے سے فائدہ اٹھانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

چند روایات ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ جیسے حال ہی میں بغیر کسی مخالفت کیے اہم عہدوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے قانون کو منظور کیا گیا۔ اس منظوری نے سب کو اپنے دیے ہوئے دھوکے میں مبتلا کردیا، اور اب ہر کوئی جھوٹ موٹ کی حیرانی کا اظہار کررہا ہے۔ اس کے بعد معمول کی روایات کا سلسلہ شروع ہوگا۔

حزبِ اختلاف کو مسودے میں ترامیم کا موقع تک بھی نہیں دیا گیا۔ اس بات سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے ہاتھ اس وقت کتنے کھلے اور کتنے بندھے ہیں۔ جب حزبِ اختلاف کے سیاستدان ملک میں جمہوری روایات کے قیام کو ایک بار پھر سب سے مقدم ٹھہرانے کی کوشش میں اپنے اصولی مؤقف کی وضاحت پیش کرنا شروع کریں گے تو انہیں دُور رس نتائج کا اندازہ ہوجائے گا۔

ساکھ کی بحالی کا کام شروع ہوچکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین سے تو یہ سوال پوچھا بھی جاچکا ہے کہ وہ ان لوگوں سے کس طرح نظریں ملائیں گے جنہیں ان سے چند توقعات وابستہ تھیں؟ ان کا جواب وہی رہا جس کی توقع کی جاسکتی تھی اور ایک ایسی تنظیم کے لیے فرسودہ رہا جو اب بھی پاکستان میں خواب دیکھنے والوں کے ایک خصوصی کلب کے نزدیک واحد امید ہے، ایسا کلب جس میں داخلہ گزرتے وقت کے ساتھ کم سے کم ہوتا چلا جارہا ہے۔

اگر ایمانداری سے بات کی جائے تو پیپلز پارٹی کی قیادت میں منظور ہونے والی 18ویں ترمیم ملکی سیاست میں تنازع کی وجوہات میں سے ایک قرار پاتی ہے۔ یہ ایسا تمغہ ہے جسے پیپلزپارٹی کبھی بھی ضرورت پڑنے پر اپنے سینے پر سجانا چاہے گی۔ مگر کچھ ایسی باتیں بھی اس جماعت کے ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں جن کا دفاع کرنے میں بلاول بھٹو زرداری کے لیے بہت ہی دشواری پیش آئے گی۔

انہی میں سے ایک ہے ان کی شہید والدہ کی لیگیسی۔ وہ جب سیاستدانوں اور ملک میں طاقت کے غیر سویلین مستقل دعوے داروں کے درمیان ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں عین اسی وقت منظرِعام سے رخصت ہوئیں۔

پختہ سوچ کی مالک محترمہ بینظیر بھٹو کہ جنہیں آج ہم دل سے یاد کرتے ہیں وہ ان حالات و واقعات کا ثمر تھیں جنہوں نے انہیں اقتدار کی خاطر سمجھوتوں کی راہ پر گامزن کردیا تھا۔ اس سفر پر چلنے کے لیے ان کے شوہر اور بلاول بھٹو زرداری کے استاد آصف علی زرداری نے زبردست مدد فراہم کی۔

پیپلزپارٹی طویل عرصے سے طاقت کے نمائندوں کے حلقے میں ویسی ہی قبولیت کی خواہاں رہی ہے جو مسلم لیگ (ن) کو حاصل رہی تھی۔ پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ (ن) جتنی ریٹنگ کی حامل جماعت میں بدلنے کا عمل اس وقت تیز ہوگیا جب آصف زرداری نے اس جماعت کی باگ ڈور سنبھالی۔ چند ایسے ٹھوس آثار موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کسی بھی وقت اس سانچے سے خود کو نکال سکتے ہیں جسے ان کے غیر معمولی شخصیت کے حامل والدین نے ان کے لیے چُنا تھا۔

تاہم ہم میں سے چند خواب دیکھنے والے بضد ہیں۔ وہ بلاول بھٹو زرداری کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے ہیں کہ وہ ویسا کردار ادا نہیں کر رہے جو ان کی والدہ کرتیں، حالانکہ اپنی سیاسی زندگی کے اس حساس موڑ پر وہ ممکنہ طور پر وہی کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے کام کرنے کے لیے دی گئی آوازوں پر لبیک کہنے کے بعد وہ کس طرح لوگوں کا سامنا کریں گے تو ان کے ذہن میں وہی پرانی راہ لینے کی سوچ آئی تاکہ پاکستان کے اقتداری تھیٹر میں اپنی موجودگی کی مدت بڑھائی جاسکے۔ انہوں نے پیپلزپارٹی سے جُڑی پرانی جذباتی لائن دہرا دی کہ، ہم نے پہلے بھی عوام کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں اور آگے بھی کرتے رہیں گے۔

بلاول بھٹو کو اس لیے لب کشائی کرنی پڑی کیونکہ انہوں نے کئی برسوں سے سائلنٹ موڈ سے گریز کیا ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی کی لیگیسی کے سچے وارث اب تک اپنے والد کی سیاست کے وفادار پیروکار کے طور پر دکھائی دیتے ہیں جبکہ انہوں نے ان تمام آوازوں کو مایوس کیا جو بلاول سے بینظیر بھٹو جیسی نفاست کے اظہار کا مطالبہ کررہے تھے۔

اس معاملے میں ان کی لاہوری ہم پلہ مریم نواز خود کو خوش قسمت تصور کرسکتی ہیں جنہوں نے خود سے خاموشی کا روزہ رکھ لیا اور یوں اس طرح کے غیر ضروری بیان دینے سے بچ گئیں جس کی توقع بصورت دیگر ان سے کی جاسکتی تھی۔

لہٰذا اگر یا جب بھی ان کی جماعت نے اپنی مزاحمت پسند ساکھ میں نئی روح پھونکنے کی مہم کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں اس خاموشی کا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔

میڈیا میں تو پہلے ہی محتاط انداز میں ایسی خبریں لیک کی جا رہی ہیں کہ حالیہ بل کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جس انداز میں احکامات کو سر خم تسلیم کیا گیا اس پر مریم نواز کس قدر ناخوش ہیں۔

اپنے وعدہ شدہ کردار کو ادا کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرنے کی وجہ سے مریم نواز کو توسیع بھی مل سکتی ہے۔


یہ مضمون 10 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں