احتساب آرڈینینس چیئرمین نیب کے عہدے کے ساتھ بڑی زیادتی کرتا ہے کیونکہ انہیں ایسی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جنہیں ایک شخص کے لیے سنبھالنا آسان نہیں ہے، اور اسے ایسے اختیارات سے نوازا ہے جنہیں کوئی بھی ایسا شخص تسلیم کرنا نہیں چاہے گا جو اپنی صحت اور ساکھ کی پرواہ کرتا ہو۔
چیئرمین نیب اسٹاف کا ہر لحاظ سے آقا ہے۔ وہ چاہے کسی کو بھی اپنی مرضی کی مدتوں کے لیے نیب میں مقرر کرسکتا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی بذریعہ صدر ہوتی ہے، مگر اس میں بھی چیئرمین کی مشاورت شامل ہوتی ہے۔ (2002ء میں پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی کے معاملے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت کی ضرورت کو ختم کردیا گیا تھا۔)
چیئرمین اگرچہ احتساب عدالتوں کے ججوں کو تو منتخب نہیں کرتا لیکن یہ عدالتیں ان کی جانب سے ریفرنس دائر کیے جانے کے بعد ہی کسی ملزم کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکتی ہیں۔
نیب چیئرمین اپنے غیر معمولی اختیارات کی بنیاد پر (حاضر سروس یا ریٹائرڈ) سرکاری عہدیداروں اور سول سرونٹس کے خلاف تفتیش کا حکم دے سکتا ہے۔ وہ ملزم کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ ان کے اختیارات میں جو سب سے زیادہ متنازع پہلو ہے وہ یہ کہ لوگوں کو گرفتار کرنے کے بعد ایسے قید خانوں میں رکھنے کا حکم دیا جاسکتا ہے جو جیل حکام یا جیل کے پرزن رولز کے ماتحت نہیں ہوتے ہیں۔
شق 24 کے تحت کسی بھی ملزم کو 90 روز تک نیب کی تحویل میں رکھنے کی اجازت مانگنے کے لیے اسے عدالت کے سامنے پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی سے متعلق قوانین میں 90 روزہ کا ہندسہ 9/11 کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے دوران شامل کیا گیا تھا، لیکن نیب قوانین میں اس ہندسے کی شمولیت ایسے بہت سے لوگوں کے لیے بے سبب تکالیف کا باعث بنی ہے جنہیں اعترافِ جرم یا وعدہ معاف گواہ بننے کی ہامی بھرنے تک تنگ جگہوں اور نہایت ناگوار حالات میں رہنا پڑتا ہے۔
یہ عمل اس قدر سخت ہے کہ جس کی آئین کی شق 14 (2) میں ممانعت ہے۔ عدالتوں نے اس قسم کے مقدمات پر سنجیدگی سے جائزہ لیا ہے اور پاکستان اسٹیٹ آئل کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق اور فواد حسن فواد کی 18 ماہ قید کے بعد ضمانت کی منظوری کے وقت ان کے مشاہدات کا حوالہ نیب سے منسوب کرتے ہوئے پیش نہیں کیا جاسکتا۔
نیب کی جانب سے اپنے ٹارچر نما طریقہ کار کو درست ٹھہرانے کے لیے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا ادارہ لگ بھگ 153 ارب روپے کی ری کوری کرچکا ہے اور اس کارنامے پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بھی ان کی معترف ہے، لیکن احتساب کے اس رکھوالے کو ریاست کے ٹیکس اور ریونیو وصول کرنے والے اداروں کی جگہ لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔