اور پھر مختلف قوموں کی اپنی اپنی کھانوں کی پسند اور ترجیحات ہیں، جو یقیناً غیرملکیوں کو عجیب لگتی ہوں گی۔ فیو گراس بنانے کے لیے قازوں کے جگر کو جبراً خوراک کھلا کر بڑا کیا جاتا ہے اور یہ عمل ان پرندوں کے لیے نہایت دردناک ثابت ہوتا ہوگا لیکن ہم پھر بھی اس عمل سے باز نہیں آتے کیونکہ ہمیں تو ملائم سی پیسٹ حاصل کرنی ہوتی جو مہنگے ریسٹورنٹس میں بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔
عالمی سطح پر تنقید کے باوجود جاپان کے لوگ وہیل مچھلیوں کا شکار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گہرے سمندر میں پائی جانے والی ان بڑی مچھلیوں کے گوشت کو فریز کرکے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے وہیل مچھلیوں کے گوشت کے استعمال میں معمولی سی کمی ہی آئی ہے لیکن جاپانیوں کا اصرار ہے کہ وہیل مچھلی کا گوشت ان کی ثقافت کا حصہ ہے۔
فرانس، اٹلی اور جرمنی میں لوگ اب بھی گھوڑے کا گوشت کھاتے ہیں۔ جب میں اپنی نوعمری کے دوران پیرس میں قیام پذیر تھا ان دنوں قصائیوں کی بہت سی دکانوں کے آگے گھوڑوں کی سریاں سجی ہوئی مل جاتی تھیں۔ مجھے ایک بار اٹلی میں ہارس اسٹیک کھانے کا اتفاق بھی ہوا جو چربی سے پاک اور لذیذ پکوان تھا۔ کبھی سوچا ہے کہ غیرملکی نلی نہاری جیسے ہمارے پسندیدہ پکوان کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟
آخر میں بات زاویہ نظر اور ذائقے کی پسندیدگی پر آ کر ختم ہوتی ہے۔ لیکن ہاں میں اب بھی چمگادڑوں کی کسی ڈش کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہیں کروں گا۔
یہ مضمون یکم فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔