موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی غذائی قلت کو کیسے روکیں؟


موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں ناقص غذا اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ کا مسئلہ بد سے بدترین صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اگرچہ ماہرین بہت پہلے ہی زراعت اور غذائی تحفظ کو موسم سے لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ کرچکے تھے لیکن حالیہ وقتوں میں موسمیاتی تبدیلی اور ناقص غذا کے درمیان تعلق اب واضح طور پر نظر آنے لگا ہے۔
مختلف امدادی تنظیموں کی جانب سے شروع کردہ پروگرام ’اسکیلنگ اپ نیوٹریشن‘، ایک ایسا مشترکہ پروگرام ہے جو اب تک 30 سے زائد ممالک کو ان کے ہاں قومی سطح پر خوراک سے جڑی حکمت عملی جوڑنے میں معاونت کرچکا ہے۔ یہ پروگرام فصل کی ناکامیوں اور غذائی عدم تحفظ کی وجہ بعض اوقات قحط سالی، طوفان یا شدید گرمی کی لہر جیسی موسمیاتی آفات کو قرار دیتا ہے۔
تاہم چند حالیہ پروگراموں نے موسمیاتی تبدیلی، درجہ حرارت میں اضافے اور بڑھتے موسمی تغیر کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ حالیہ وقتوں میں ماہرین بھی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے نئی پالیسیاں مرتب کر رہے ہیں۔ اپنی مستقبل کی غذائی حکمت عملی میں پہلے سے زیادہ وسیع اور مربوط لائحہ عمل اپنانے کے لیے پاکستان کے پاس یہی اچھا موقع ہے۔
ملک کی تقریباً نصف آبادی اپنی آمدنی کا 60 فیصد حصہ کھانے کی اشیا پر خرچ کردیتی ہے لیکن آنے والے دنوں میں یہ لوگ غذائی بحران کا سامنا کرسکتے ہیں۔
گورننس کی عدم توجہی کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ کو مزید تقویت مل رہی ہے اور اب جبکہ 50 برسوں میں زمین کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری سیلسیس کی تبدیلی آچکی ہے پھر بھی غذائی عدم تحفظ کا معاملہ سیاسی ناپائیداری کا شکار نظر آتا ہے۔ تصور کیجیے کہ اگر پیرس معاہدہ ناکام ہوجاتا اور آنے والے برسوں میں درجہ حرارت بڑھتے بڑھتے 2 ڈگری سیلسیس یا اس سے تجاوز کرجاتا تو کیا ہوتا؟
بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (The Inter-governmental Panel on Climate Change (IPCC نے خبردار کیا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھی ہوئی شرح گندم اور چاول جیسی فصلوں کی غذائی قوت گھٹا دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کی اجناس میں شامل پروٹین، زنک اور آئرن کی مقدار کو بھی متاثر کرتی ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بلند شرح پودوں کی اندرونی کمسٹری میں خلل ڈالتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پودے جو پروٹین اور دیگر وٹامن کو اپنے اندر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کے معیار میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔
اس وقت دنیا کی 76 فیصد آبادی اپنے روزمرہ کے پروٹین کی ضرورت پودوں سے ہی حاصل کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے عالمی غذائی بحران کو مزید تقویت پہنچے گی جس کے باعث لاکھوں لوگ جس خوراک پر انحصار کرتے ہیں اس میں سے ضروری غذائیت حاصل نہیں کرپائیں گے، یوں اس موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بالخصوص پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں موجود 35 کروڑ 40 لاکھ بچے متاثر ہوں گے۔
آئی پی سی سی کے مطابق فضا میں 546 سے 586 پی پی ایم کاربن ڈائی آکسائیڈ (یہ کم و بیش درجہ حرارت میں 2 ڈگری سیلسیس کے اضافے کے ہی برابر ہے) کی موجودگی میں جس گندم و دیگر اناج اور دالوں کو اگایا جاتا ہے ان میں 6 سے 13 فیصد کم پروٹین، 4 سے 7 فیصد کم زنک اور 5 سے 8 فیصد کم آئرن پایا جاتا ہے۔ کاربن اخراج کی زیادتی کے باعث 2020ء تک 20 کروڑ افراد زنک کی کمی کا شکار بن سکتے ہیں۔ قومی غذائی سروے برائے 2018ء کے مطابق پاکستانی بچے پہلے ہی پروٹین، زنک اور آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔
عام لوگ ایک ہی وقت میں ان 3 خطرات کی زد میں ہیں،
- انہیں موسمیاتی وجوہات سے پیدا ہونے والے دباؤ اور آفات سے خطرہ لاحق ہے
- غذابخش خوراک کی محدود قوتِ خرید رکھنے والے لوگ پرائس شاک کے باعث مزید مشکلات میں گھرتے جا رہے ہیں اور یوں
- یہ ملکی معیشت کی پیداوار میں مددگار ثابت نہیں ہوپاتے، واضح رہے کہ پاکستان کی معیشت خطے میں سب سے کم شرح نمو کی حامل معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے۔
- ناقص غذائیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ماں کے دودھ سے زیادہ مؤثر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ ڈبہ بند فارمولہ دودھ کو فروغ دینے والے نجی طبّی مراکز کو کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے اور انہیں ضابطہ بندی کے دائرے میں لایا جائے۔
- دوسرا یہ کہ جلدی خراب ہونے والے پھلوں، سبزیوں، سیریل اور گوشت کی برآمدات بند کی جائے، پھر چاہے سی پیک میں زرِمبادلہ اور تجارتی توازن کے دباؤ کا سامنا کیوں نہ ہو۔ محرومیوں کی آبادی کے لیے یہ چیزیں اہم غذائی ذرائع کی حیثیت رکھتی ہیں۔
- تیسرا یہ کہ 10 ارب درخت لگانے کے مشن کے ساتھ ساتھ نان ٹمبر مصنوعات اور خدمات کو فروغ دیا جائے۔ یہ ملکی باشندوں بالخصوص غربا کے لیے قلیل مغذی اور غذائی اجزا کے اہم ذرائع ہیں۔ صرف درختوں سے کام نہیں بن سکتا۔
- چوتھا، اہم تحقیقی مراکز کو علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے اس قابل بنایا جائے کہ وہ قحط سالی، سیلاب اور گرمی کی لہر جیسے حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھنے والی اجناس تیار کرسکیں اور ایسی اجزا تیار کی جائیں جو اہم قلیل مغذی اجزا سے بھرپور ہوں اور گرمی کی شدت برداشت بھی کرسکتے ہوں۔
- اور آخری یہ کہ اگلے 5 برس کے لیے ناقص غذا کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے 500 ارب روپے اکٹھا کیے جائیں۔ آپ ایک کامیاب فنڈ ریزر ہیں۔ اپنا پہلا خطاب یاد کیجیے اور جو عزم وہاں پر چھوڑا اسے وہیں سے بحال کریں۔ ایک قومی موسمیاتی اور غذائی ایجنڈے کی تشکیل سے زیادہ غریب دوستی کا ثبوت اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
لکھاری اسلام آباد میں واقع لیڈ پاکستان نامی ماحولیات اور ترقیاتی مسائل پر خصوصی طور پر کام کرنے والی تھنک ٹینک کے سی ای او ہیں۔