عام لوگ ایک ہی وقت میں ان 3 خطرات کی زد میں ہیں،
- انہیں موسمیاتی وجوہات سے پیدا ہونے والے دباؤ اور آفات سے خطرہ لاحق ہے
- غذابخش خوراک کی محدود قوتِ خرید رکھنے والے لوگ پرائس شاک کے باعث مزید مشکلات میں گھرتے جا رہے ہیں اور یوں
- یہ ملکی معیشت کی پیداوار میں مددگار ثابت نہیں ہوپاتے، واضح رہے کہ پاکستان کی معیشت خطے میں سب سے کم شرح نمو کی حامل معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے۔
غذائیت کی عالمی رپورٹ برائے 2015ء کے مطابق غربا کی ناقص غذائیت کی وجہ سے پیدا ہونے والے طبّی مسائل سے نمٹنے کے لیے شعبہ صحت کو ناقص غذائیت سے بچاؤ کے لیے مطلوب اخراجات سے 16 گنا زیادہ خرچہ اٹھانا پڑا۔ اس سب کے باوجود بھی حکومت ایک جامع بین الشعبہ جاتی لائحہ عمل اپنانے، موسمیاتی اور غذائی اعتبار سے جدید تقاضوں کے مطابق موزوں زرعی نظام کو تقویت پہنچانے اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر دلچسپی دکھانے سے کتراتی ہے۔
وزیرِاعظم نے اپنے پہلے خطاب میں بہت سی امیدیں بندھوائی تھیں لیکن موجودہ بے عملی کے ماحول نے چند ایسے اہم کاموں کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے جو وزیرِاعظم کی ذاتی توجہ کی متقاضی ہیں۔ مندرجہ ذیل میں وہ کام اور ان سے جڑے قانون سازی کے 5 اہم اقدامات کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
- ناقص غذائیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ماں کے دودھ سے زیادہ مؤثر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ ڈبہ بند فارمولہ دودھ کو فروغ دینے والے نجی طبّی مراکز کو کسی قسم کی رعایت نہ دی جائے اور انہیں ضابطہ بندی کے دائرے میں لایا جائے۔
- دوسرا یہ کہ جلدی خراب ہونے والے پھلوں، سبزیوں، سیریل اور گوشت کی برآمدات بند کی جائے، پھر چاہے سی پیک میں زرِمبادلہ اور تجارتی توازن کے دباؤ کا سامنا کیوں نہ ہو۔ محرومیوں کی آبادی کے لیے یہ چیزیں اہم غذائی ذرائع کی حیثیت رکھتی ہیں۔
- تیسرا یہ کہ 10 ارب درخت لگانے کے مشن کے ساتھ ساتھ نان ٹمبر مصنوعات اور خدمات کو فروغ دیا جائے۔ یہ ملکی باشندوں بالخصوص غربا کے لیے قلیل مغذی اور غذائی اجزا کے اہم ذرائع ہیں۔ صرف درختوں سے کام نہیں بن سکتا۔
- چوتھا، اہم تحقیقی مراکز کو علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے اس قابل بنایا جائے کہ وہ قحط سالی، سیلاب اور گرمی کی لہر جیسے حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھنے والی اجناس تیار کرسکیں اور ایسی اجزا تیار کی جائیں جو اہم قلیل مغذی اجزا سے بھرپور ہوں اور گرمی کی شدت برداشت بھی کرسکتے ہوں۔
- اور آخری یہ کہ اگلے 5 برس کے لیے ناقص غذا کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے 500 ارب روپے اکٹھا کیے جائیں۔ آپ ایک کامیاب فنڈ ریزر ہیں۔ اپنا پہلا خطاب یاد کیجیے اور جو عزم وہاں پر چھوڑا اسے وہیں سے بحال کریں۔ ایک قومی موسمیاتی اور غذائی ایجنڈے کی تشکیل سے زیادہ غریب دوستی کا ثبوت اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
یہ مضمون 15 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔