ایک اور مغوی ڈاکٹر انور شبوزئی کے بیٹے روحیل خان نے بھی اپنے والد کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
'میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ وہ ان کی بازیابی کے لیے کچھ کرے'۔
جہاں وفاقی حکومت، بلوچستان میں کھلے عام جاری اغواء کی ان واردرتوں سے لاتعلق نظر آتی ہے تو وہیں صوبائی حکومت بھی متاثرہ خاندانوں کو صرف تسلیاں دے رہی ہے۔
فرنٹیئر کارپس کے ایک سینیئر افسر نے ژوب میں صحافیوں کو بتایا کہ مغوی ڈاکٹروں کو رہا کرا لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو آپریشن میں سات اغواء کار بھی حراست میں لیے گئے ہیں۔
ان کے بیان کی صحت اس لیے قابل اعتبار نظر نہیں آتی کہ اسلام آباد پولیس کا کرائم یونٹ میڈیا کو بتا رہا ہے کہ مغوی ڈاکٹروں کی رہائی کے لیے ایف سی کے آپریشن میں ان کا تعاون بھی شامل تھا۔
تاہم میڈیا کو ایسی معلومات کی فراہمی کے باوجود مغوی ڈاکٹروں کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔
اس طرح کے غیر ذمہ درانہ بیانات نے ڈاکٹر نصر اللہ کے اہل خانہ کے اندر جھوٹی امیدیں پیدا کر دی تھیں۔
ماہ پارہ نے بتایا کہ میڈیا کے ذریعے یہ معلوم ہونے پر کہ ان کے والد بازیاب ہو گئے ہیں، ان کے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔
تاہم یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔
ایک طرف جہاں قوم، عید الفطر منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے تو وہیں ڈاکٹر نصر اللہ کے اہل خانہ مایوسی کا شکار ہیں۔
'ہم نے اس مرتبہ عید کے لیے کپڑے اور دوسری چیزوں کی خریداری نہیں کی کیونکہ روائتی طور پر یہ ذمہ داری ہمارے والد نبھاتے چلے آ رہے تھے'۔
اغواء برائے تاوان، کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں کھلے عام کارروائیاں کرنے والے گروہوں کے لیے آمدنی کا پرکشش ذریعہ بن چکا ہے۔
مسلح افراد ماضی میں بھی مشہور ڈاکٹر غلام رسول، ڈاکٹر سعید خان اور کئی دوسرے ڈاکٹروں کو کوئٹہ سے اغواء کر چکے ہیں۔
ان تمام مغویوں کی رہائی، بھاری تاوان دینے پر ہی ممکن ہو سکی تھی۔
بلوچستان کے وزیر اعلٰی ڈاکٹر مالک بلوچ کئی مرتبہ صوبے میں ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی حکومتی پالیسی کا ذکر کر چکے ہیں۔
تاہم نئی انتظامیہ کے آنے کے باوجود صوبے میں ایسے واقعات بغیر کسی تعطل کے جاری ہیں۔