پاکستان

بلوچستان، جہاں ڈاکڑز 'لاپتہ' ہوجاتے ہیں

بلوچستان میں ڈاکڑوں کا اغواء برائے تاوان پرکشش کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

مسلح افراد نے بارہ جون کو بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے ڈاکٹر نصر اللہ سمیت پانچ ڈاکٹروں اور پیرا میڈکس کو اٹھا لیا تھا۔

وہ دن ہے اور آج کا، کوئی بھی ان مغویوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔

روائتی پشتو شلوار قمیض میں ملبوس ڈاکٹر نصراللہ کی بارہ سالہ بیٹی ماہ پارہ اپنے اہل خانے پر گزرنے والے مصیبتوں کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑیں۔

مغویوں کے حق میں ڈاکٹروں کے منعقد کردہ احتجاج میں شریک ماہ پارہ نے ڈان ۔ کام سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے گھر میں ہر وقت دکھی فضا رہتی ہے۔

یہ بچی احتجاج میں شریک ہونے کے لیے اپنے آبائی علاقے لورالائی سے سو کلو میٹر کا سفر طے کر کے کوئٹہ پہنچی تھی۔

ماہ پارہ کے مطابق، ان سب کی آنکھیں اپنے والد کے گھر واپسی کی امید میں ہر وقت  دروازے پر ٹکی رہتی ہیں۔

قلعہ سیف اللہ سے اغواء ہونے والے ڈاکٹروں کے اہل خانہ اپنی آواز، مسند اقتدار پر بیٹھے افراد تک پہنچانے کی ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے مختلف پریس کلبوں اور سینیئر سرکاری عہدے داروں کے دفاتر کے باہرمسلسل احتجاج بھی کیا لیکن اس کے باوجود اس کیس پر زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔

حکومت دعوی کرتی ہے کہ انہوں نے قبائلی بیلٹ سے ملحقہ ژوب کے مخلتف علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔

تاہم انہیں ڈاکٹر نصر اللہ اور دوسرے مغویوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل سکا۔

ادھر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے بھی مغویوں کی باحفاظت بازیابی کے لیے احتجاجی مہم شروع کر دی ہے۔

پی ایم اے بلوچستان کے صدر ڈاکٹر سلطان ترین نے احتجاج کرنے والے ساتھی ڈاکٹروں سے ایک جذباتی تقریر میں کہا کہ اگر مغوی ڈاکٹروں کو بازیاب نہ کرایا گیا تو وہ  اپنے مظاہروں میں مزید شدت لائیں گے۔

اپنے والد کی بازیابی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیارماہ پاری اکیلی نہیں ہے۔

مغوی ڈاکٹروں کے کئی بچے تعلیم چھوڑ کر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے کوئٹہ میں جاری احتاج میں شریک ہیں۔

ایک اور مغوی ڈاکٹر انور شبوزئی کے بیٹے روحیل خان نے بھی اپنے والد کی واپسی کا مطالبہ کیا۔

'میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ وہ ان کی بازیابی کے لیے کچھ کرے'۔

جہاں وفاقی حکومت، بلوچستان میں کھلے عام جاری اغواء کی ان واردرتوں سے لاتعلق نظر آتی ہے تو وہیں صوبائی حکومت بھی متاثرہ خاندانوں کو صرف تسلیاں دے رہی ہے۔

فرنٹیئر کارپس کے ایک سینیئر افسر نے ژوب میں صحافیوں کو بتایا کہ مغوی ڈاکٹروں کو رہا کرا لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو آپریشن میں سات اغواء کار بھی حراست میں لیے گئے ہیں۔

ان کے بیان کی صحت اس لیے قابل اعتبار نظر نہیں آتی کہ اسلام آباد پولیس کا کرائم یونٹ میڈیا کو بتا رہا ہے کہ مغوی ڈاکٹروں کی رہائی کے لیے ایف سی کے آپریشن میں ان کا تعاون بھی شامل تھا۔

تاہم میڈیا کو ایسی معلومات کی فراہمی کے باوجود مغوی ڈاکٹروں کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔

اس طرح کے غیر ذمہ درانہ بیانات نے ڈاکٹر نصر اللہ کے اہل خانہ کے اندر جھوٹی امیدیں پیدا کر دی تھیں۔

ماہ پارہ نے بتایا کہ میڈیا کے ذریعے یہ معلوم ہونے پر کہ ان کے والد بازیاب ہو گئے ہیں، ان کے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔

تاہم یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔

ایک طرف جہاں قوم، عید الفطر منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے تو وہیں ڈاکٹر نصر اللہ کے اہل خانہ مایوسی کا شکار ہیں۔

'ہم نے اس مرتبہ عید کے لیے کپڑے اور دوسری چیزوں کی خریداری نہیں کی کیونکہ روائتی طور پر یہ ذمہ داری ہمارے والد نبھاتے چلے آ رہے تھے'۔

اغواء برائے تاوان، کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں کھلے عام کارروائیاں کرنے والے گروہوں کے لیے آمدنی کا پرکشش ذریعہ بن چکا ہے۔

مسلح افراد ماضی میں بھی مشہور ڈاکٹر غلام رسول، ڈاکٹر سعید خان اور کئی دوسرے ڈاکٹروں کو کوئٹہ سے اغواء کر چکے ہیں۔

ان تمام مغویوں کی رہائی، بھاری تاوان دینے پر ہی ممکن ہو سکی تھی۔

بلوچستان کے وزیر اعلٰی ڈاکٹر مالک بلوچ کئی مرتبہ صوبے میں ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی حکومتی پالیسی کا ذکر کر چکے ہیں۔

تاہم نئی انتظامیہ کے آنے کے باوجود صوبے میں ایسے واقعات بغیر کسی تعطل کے جاری ہیں۔