تو وہاں صرف 10، 12 آدمی تھے۔ اس بات سے بے خبر کہ آج ان کی عورتیں وقت سے پہلے رسوئی میں چلی گئی ہیں اور ان کی مائیں قبل از وقت مصلے بچھائے بیٹھی ہیں، اور ان مردوں کے درمیان وہ بھی موجود تھا۔
چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ لیے، دوسروں پر طنزیہ نگاہ ڈالتے ہوئے، مسلسل سوچتے ہوئے کسی عفریت کی طرح چوکس اور چوکنا۔
میں اسے دیکھ سکتا تھا۔ محسوس کرسکتا تھا۔ اور وہ شخص جو میرے ساتھ تھا، وہ بھی اس کی موجودگی کا ادراک رکھتا تھا۔ اس کا نام سجاد تھا۔ وہ ایئرپورٹ کے نزدیک ایک کچے پکے علاقے میں اپنی بوڑھی ماں، بیوی اور بیٹی کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔
میں سجاد کے ساتھ اس کی موٹر سائیکل پر یہاں آیا تھا۔ لاک ڈاؤن کا اعلان ہوچکا تھا۔ تمام ملازمین مصروف تھے۔ کام جلدی نمٹانے کی خواہش نے ایک شور کو جنم دیا۔ سب تیزی سے آ جارہے تھے۔ مگر اس گہماگہمی کے باوجود لنچ پر، اسموکنگ ایریا میں کہیں میرا اس استہزائیہ مسکراہٹ، ان طنزیہ نگاہوں سے سامنا نہیں ہوا۔
یہ شام کی چائے تھی، آخری چائے، جس کی بازگشت میں، میں نے اسے پہلی بار دیکھا۔
وہ شخص ایک کرسی پر بیٹھا جھول رہا تھا۔ اچانک وہ اٹھا اور میری طرف بڑھنے لگا۔
اس کی مسکراہٹ قائم تھی اور ذہن حرکت میں تھا۔ وہ ضرور کوئی منصوبہ بنا رہا تھا، اور یہ میں اس کی آنکھوں میں دیکھ سکتا تھا۔
وہ اسی سمت آرہا تھا، جہاں میں موجود تھا۔ سجاد کچھ سمٹ گیا، اور وہ یوں ظاہر کرنے لگا، جیسے اس نے اسے دیکھا ہی نہ ہو۔
وہ ہماری سمت آتے آتے اچانک رک گیا۔ پُراسرار مسکراہٹ ہونٹوں پر چسپاں تھیں اور اس کے ذہن میں کچھ پک رہا تھا۔ پھر وہ بنا کوئی اشارہ کیے، مڑا اور کسی اور سمت چلا گیا۔ جانے کہاں، جانے کدھر۔
فلور کی روشنیاں دھیرے دھیرے بجھ رہی تھیں اور مجھے یوں لگ رہا تھا، جیسے میں اسے دوبارہ نہیں دیکھ سکوں گا۔
مگر میں غلط تھا۔
رات چھا گئی۔ سگنل پر اِکا دُکا گاڑیاں تھیں۔ سجاد کی موٹر سائیکل کے علاوہ چند موٹر سائیکلیں اور ایک سوزکی اور ایک بس۔
صرف بس ہی وہ جگہ تھی، جہاں اس رات انسانوں کی قربت کا منظر میسر تھا، ورنہ ہر سمت فاصلہ تھا، بے نام دُوری تھی۔ وبا نے سب کو ایک دوسرے سے لاتعلق کردیا تھا۔
سگنل کھلنے کو تھا۔ سجاد کی ایکسیلیٹر پر گرفت بڑھنے لگی۔ حاکمِ وقت کی بے نور آنکھیں ایک بل بورڈ سے ہمیں گھور رہی تھیں۔ بس کے ڈرائیور نے غیر ضروری طور پر ہارن بجایا، جس نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ میں نے اس سمت دیکھا اوریہ کیا...
وہاں... بس کی ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے اُدھر میں نے اُسے دوبارہ پا لیا۔
ہاں، وہی۔ اسی استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ، چوکس اور چوکنا، جیسے کوئی شکاری۔ وہ بس میں لوگوں کے درمیان کھڑا تھا۔ مطمئن اور مسرور۔ جیسے وہاں ہونا ہی اس کا اصل منصوبہ تھا۔ منصوبہ، جو پورا ہوچکا تھا۔
بس ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی۔ سگنل کھل گیا تھا۔ حاکمِ وقت کی بے نور آنکھیں ہمیں جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔
موٹر سائیکل خالی سڑک پر دوڑ رہی تھی اور میرا ذہن اس میں اٹکا تھا۔ شاید اس کی استہزائیہ مسکراہٹ کہیں میری ہڈیوں میں اتر گئی تھی یا شاید رات کی تاریکی میں چمگادڑوں کے ساتھ اڑتی پھر رہی تھی۔
ہوا یکدم خنک ہوگئی۔ آسمان سے قطرے اترنے لگے۔ سجاد نے گہرا سانس لیا۔
’بارش‘، اس نے قہقہہ لگایا تھا۔ ’لاک ڈاؤن میں بارش۔‘
اس کی ہنسی قابلِ فہم تھی۔ یہ مضحکہ خیز ہی تو تھا۔ 2 کروڑ کی آبادی والے شہر میں آج قبرستان سی خاموشی تھی۔ برسات کو بھیگنے والے میسر نہیں تھے۔ بارش نہ تو آج کسی کو خوفزدہ کرسکتی تھی، نہ ہی مسرور۔ وہ بانجھ تھی۔
’بھلا آج ہے ہی کون‘، میں نے خود سے کہا۔ ’بس میں اور سجاد۔‘
اس خودکلامی کے ساتھ میرے ذہن میں اس شخص کا چہرہ کوندا۔
’کیا وہ بھی بھیگ رہا ہوگا؟‘، میں نے سوچا۔ ’اور کیا بھیگتے سمے بھی اس کی مسکراہٹ قائم ہوگی؟ کیا اب بھی اس کے ذہن میں کوئی منصوبہ پک رہا ہوگا؟‘
اسے دوبارہ دیکھنے کی خواہش میرے دل میں مچلنے لگی۔ شدت سے، پوری قوت سے، دیوار پر سر مارتی بھینس کی طرح، جس کا دودھ نہ دوہیا گیا ہو۔ میں نے سوچا، سجاد سے اس کے بارے میں پوچھوں، مگر پھر اپنا ارادہ بدل دیا۔
سجاد نے ہیلمٹ اتار دیا تھا۔ اس کے بال بھیگ گئے۔ شاید وہ کوئی گیت گنگنا رہا تھا۔ اس نے موٹرسائیکل کی رفتار دھیمی کرلی۔ ہمارے اردگرد ہزاروں مکان تھے، جن کے باسیوں نے وبا کے خوف سے اپنے دروازے بند کر رکھے تھے۔
فلیٹس کی چار دیواری میں داخل ہونے کے بعد مجھے اس زندگی کی ہلکی سے جھلک نظر آئی، جو وبا سے پہلے اس شہر میں چلتی پھرتی تھی۔ کچھ بچے، کچھ لوگ، تھوڑی چہل پہل۔