ٹیلی ہیلتھ یا ٹیلی میڈیسن کیا ہے اور آپ کیسے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟
ضرورت ایجاد کی ماں ہے، یہ محاورہ کورونا وائرس کی وبائی پھوٹ میں کئی جگہوں پر مصداق نظر آتا ہے۔ مثلاً اب آن لائن ذرائع سے درس و تدریس کا عمل جاری ہے، خریداری آن لائن ہو رہی ہیں، اسی طرح گھر بیٹھے علاج معالجے کی سہولت حاصل کرنے کے لیے ٹیلی میڈیسن کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ بلاشبہ یہ سب موجودہ ہنگامی حالات میں ایک بہتر اور آسان طریقہ بن کر سامنے آیا ہے۔
آج کل بہت سے نجی ہسپتالوں اور کلینک میں ٹیلی میڈیسن کا آغاز ہوچکا ہے اور چند دوسرے ادارے بھی عام آدمی کو یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ کہیں یہ سہولت مفت مہیا کی جارہی ہے اور کہیں فیس بھی طلب کی جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں دستیاب ٹیلی میڈیسن کا شعبہ کس حد تک کامیاب ہے؟ اور ہمارے ملک میں اس کا مستقبل کیا ہے؟ ساتھ یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹیلی میڈیسن کی سہولت سے مریض اور ان کے اہل خانہ کس حد تک مطمئن ہیں۔
پیما ٹیلی کلینک سروس
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کی ہیلتھ لائن پروجیکٹ کی سربراہ ڈاکٹر حوریہ نے ہمیں بتایا کہ ’کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن میں یہ ضروری تھا کہ لوگ گھروں سے کم سے کم باہر نکلیں اور اگر انہیں کوئی صحت کا مسئلہ درپیش ہو یا فوری طبّی مشورہ درکار ہو تو وہ گھر بیٹھے ہی باآسانی ڈاکٹر سے رجوع کرسکیں۔ ان ساری باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے پیما نے 23 مارچ کو اپنی ہیلتھ ہیلپ لائن کا آغاز کیا۔ اس میڈیکل ہیلپ لائن کی سہولت پورے ملک میں بالکل مفت فراہم کی جارہی ہے۔ ہمارے ڈاکٹر 3 شفٹوں میں کام کر رہے ہیں یعنی مریض ہم سے صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک رابطے کرسکتے ہیں‘۔