کسی کسی کا دماغ بھی عرش پر پہنچ جاتا ہے۔ عربی میں عرش کی تصغیر عریش ہے یعنی چھوٹی کرسی، دھوپ سے بچنے کے لیے سایہ دار جگہ، پھونس سے بنا ہوا چھپر جو باغوں اور فصلوں کی نگرانی کے لیے عارضی طور پر بنا لیتے ہیں۔ جنگِ خندق کے دوران ایک پہاڑی پر رسول اکرم ﷺ کے لیے سایہ دار جگہ بنائی گئی تھی، اسے بھی عریش کہا جاتا ہے۔ بعد میں اس کی جگہ مسجد فتح بنادی گئی۔ لڑکیوں کا نام عریشہ رکھا جانے لگا اور بحری جہازوں میں عام مسافروں کے لیے عرشہ ہوتا ہے، وہ بھی عرش ہی سے ہے۔
محطہ تو ظاہر ہے کہ احاطہ سے ہے اور یہ لفظ اردو میں عام ہے۔ محیط بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن پیٹرول پمپ وغیرہ کے لیے محطہ استعمال نہیں ہوتا۔ اسی سے ایک لفظ محاط ہے یعنی گھیرا گیا، احاطہ کیا گیا۔ اس کا ایک مطلب ’مشہور‘ بھی ہے۔
چلیے اب عربی کے بجائے اردو کی طرف آجاتے ہیں، عربی دانی کسی اور کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ آج کل اخبارات میں ’تار‘ کو کثرت سے مونث لکھا جارہا ہے خواہ وہ بجلی کا تار ہو، کسی جلوس کو روکنے کے لیے بچھائے گئے تار ہوں یا تارِ برقی ہو (ٹیلی گرام)، جس کا رواج شاید اب نہیں رہا۔
لیکن تار کسی بھی قسم کا ہو، یہ فارسی کا لفظ ہے اور مذکر ہے۔ مطلب اس کا ہے: ’تاگا، دھاگا، کسی دھات کا لمبا ڈورا، سلسلہ، قوام، پیپ، تارِ برقی وغیرہ۔‘ اب خواہ کانٹے دار تار بچھائیں یا یہ تارِ نگاہ ہو، یہ مذکر ہی رہے گا۔ فارسی میں تار کا ایک مطلب اندھیرا اور تاریک بھی ہے۔ تیرہ و تار تو سنا ہی ہوگا، نہیں تو اب پڑھ لیں۔ تیرہ تاریک اور اندھیرے کو کہتے ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے
شبِ غم، تیرہ بختی، فسردہ خاطری اپنی
گری کیا دیکھ کر بجلی مرے اس ساز و ساماں پر
تارِ نگاہ کے بارے میں لکھنؤ کے شاعر امام بخش ناسخ نے کہا تھا
جلا رنگ اے دیدۂ خونبار اب تارِ نگاہ
ہے محرم اس پری پیکر کو ناڑا چاہیے