ماضی میں کسی کھلاڑی کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد پورے ماحول میں جس طرح کا خوف و پُرسراریت پھیل جایا کرتی تھی، اس سے کئی زیادہ خوف کورونا پھیلا سکتا ہے کیونکہ اس بیماری کے باعث یکلخت ہی پورا ٹورنامنٹ یا سیریز منسوخ کرنی پڑسکتی ہے۔ اس کی مثال سربیا میں منعقد کیا جانے والا ایک نمائشی ٹینس ٹورنامنٹ ہے، جس کو اس وقت فوری طور پر منسوخ کردیا گیا جب دنیائے ٹینس کے صفِ اول کے کھلاڑی نوواک جوکووچ میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی۔
یورپ کے مختلف ممالک میں فٹبال کی سرگرمیاں بحال تو ہوگئی ہیں لیکن اگر بہت سارے کھلاڑیوں میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی تو ان فٹبال کے مقابلوں کو فوری طور پر روکنا پڑجائے گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکیٹو وسیم خان نے اپنے ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ جن 10 کھلاڑیوں کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، ان میں بیماری کی کوئی علامات موجود نہیں تھیں۔ وسیم خان کے اس بیان کے مطابق یہ کھلاڑی ایسے لوگوں میں شامل تھے جن میں بیماری تو موجود تھی لیکن ان میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
یعنی اب اگر قومی ٹیم دورے پر جاتی ہے تو اس بات سے کیا کوئی انکار کرسکتا ہے یا کوئی گارنٹی لے سکتا ہے کہ دورے کے دوران ہمارے کھلاڑی کا سامنا asymptomatic افراد سے نہیں ہوگا؟ یعنی ان میں بیماری تو ہوگی مگر وہ بظاہر محسوس نہیں ہوگی، اور اگر ایسا ہوا تو یہ پوری ٹیم کو نادانستہ طور پر بیمار کرنے کا باعث نہیں بنے گا؟
پاکستان کرکٹ بورڈ اور انگلینڈ اور ویلس کرکٹ بورڈ کے مابین اس دورے کی جو شرائط طے ہوئی ہوں گی ان میں یقیناً پاکستان کو بھی کچھ پُرکشش فوائد دینے کی یقین دہانی کروائی گئی ہوں گی، اور یہ تمام وعدے اور فائدے اپنی جگہ بہت اچھے ہوں گے لیکن موجودہ حالات خاصے مشکل ہیں اور ان حالات میں کرکٹ بورڈ کو کسی بھی قسم کے فوائد کو کھلاڑیوں کی صحت اور زندگیوں پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔
اس لیے جان ہے تو جہاں ہے۔ اس مقولے پر عملد در آمد کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کو فوری طور پر اس دورے سے معذرت کرلینی چاہیے۔