Dawn News Television

شائع 29 نومبر 2020 08:20pm

دنیا کے سرد ترین مقام کی لوگوں کی زندگی کیسی ہے؟

دنیا کے سرد ترین مقام کی لوگوں کی زندگی کیسی ہے؟



شمالی نصف کرہ اس وقت سردی کی لپیٹ میں ہے اور ٹھنڈک کے ساتھ دن کی روشنی کم ہوتی جارہی ہے، مگر کبھی آپ نے سوچا کہ دنیا کے سرد ترین مقام پر لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں؟

دنیا کا سرد ترین مقام جہاں جنوری میں اوسط درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور آنکھوں کی پلکوں میں چار دیواری سے باہر نکلتے ہی برف جم جاتی ہے۔

یہاں گھروں پر پائپ نہیں لگائے جاتے کیونکہ پانی جمنے سے ان کے پھٹنے کا ڈر ہوتا ہے، گاڑیاں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں تاکہ پیٹرول جم نہ جائے۔

یہ ہے روس کی ریاست سائبریا میں واقع اویمیاکون، جہاں 2018 کے آغاز میں درجہ حرارت سے آگاہ کرنے والا الیکٹرونک تھرمامیٹر منفی 62 ڈگری سینٹی گریڈ پر پھٹ گیا تھا۔

یہ وہ گاؤں ہے جہاں منفی 52 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھی اسکول کھلے رہتے ہیں۔

1920 اور 30 کی دہائی میں یہاں آبادی نہیں تھی بلکہ خانہ بدوش یہاں موسم بہار میں روکتے تھے، پھر سوویت حکومت نے اسے مستقل آبادی میں تبدیل کردیا۔

1933 میں یہاں منفی 67.7 سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا جو شمالی نصف کرے میں سب سے کم درجہ حرارت تسلیم کیا جاتا ہے۔

اگرچہ یہاں ٹھنڈ سے پلکیں منجمد ہوجاتی ہیں مگر روزمرہ کی زندگی رکتی نہیں۔

یہاں اوسط درجہ حرارت بھی عام طور پر منفی 40 کے ارگرد رہتا ہے، اتنی سردی کو سوچتے ہوئے یہاں انسانی بستی کا خیال ناقابل یقین لگتا ہے مگر وہاں اب بھی لوگ بستے ہیں۔

ماسکو سے 7 ہزار کلومیٹر دور واقع دنیا کا سرد ترین مقام سمجھے جانے والے اس گاﺅں میں 500 لوگ مقیم ہیں ۔

یہاں کے رہنے والوں کے پاس مویشی اور ماہی گیری آمدنی کے بڑے ذرائع ہیں۔

فارمز میں گائے تو موجود ہیں مگر وہ جون سے اکتوبر تک ہی دودھ دیتی ہیں جبکہ رینڈئیر (قطبی ہرن) ہی واحد جاندار ہے جو یہاں پالے جاتے ہیں۔

یہاں پر گھر ایسے تعمیر کیے گئے ہیں جو سردی کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ لوگوں کا زیادہ وقت گھر کے اندر ہی گزرتا ہے۔

جہاں تک مچھلیوں کی بات ہے تو وہ پانی سے باہر نکلتے ہی 20 سیکنڈ میں مجنمد ہوجاتی ہیں اور انہیں محفوظ رکھنے کے لیے ریفریجریٹر کی ضرورت نہیں کیونکہ ہوا کا درجہ حرارت اتنا ہوتا ہے جو مچھلی خراب نہیں ہونے دیتا۔

مگر اس کام کا حصہ بننے والوں کو خود کو ہر ممکن حد تک گرم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، ایک صحافی کے مطابق وہاں تجارتی سرگرمیوں کو فلماتے ہوئے میرے ہاتھ منجمد ہوگئے اور شدید تکلیف ہونے لگی، مگر مچھلیاں فروخت کرنے والے وہاں سارا دن کھڑے رہتے ہیں، سمجھ نہیں آتا کہ وہ خود کو گرم کیسے رکھتے ہیں۔

فوٹوگرافر اس شدید ٹھنڈ کو تخلیقی انداز سے استععمال کرتے ہیں، جیسے نیچے تصویر کو منفی 41 سینٹی گریڈ میں کھینچا گیا اور فوٹوشاپ کا استعمال بھی نہیں ہوا۔

یہاں کے شدید سرد موسم کی وجہ سمندر سے بہت زیادہ دوری ہے جبکہ یہاں سورج کی روشنی سے لطف اندوز ہونے کا موقع لوگوں کو سال کے بیشتر حصوں میں محض چند گھنٹے کے لیے ہی ملتا ہے۔

تاہم گرمیوں میں کبھی کبھار درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔

مگر سب سے دلچسپ چیز اس گاﺅں کا نام ہے جہاں سردی سے سب کچھ جم جاتا ہے مگر اویمیاکون کا مطلب ہے ایسا پانی جو کبھی جمتا نہیں۔

مگر کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ درحقیقت نام کا تلفظ درست نہیں بلکہ یہ heyum ہے جس کا مطلب منجمد جھیل ہوتا ہے۔

یہ سطح سمندر سے 750 میٹر بلندی پر واقع ہے۔

لوگوں نے اس جگہ کو ناردرن پول آف کولڈ کی عرفیت دی ہے۔

اس سردی نے اس پورے گاؤں کو ونٹر ونڈرلینڈ میں تبدیل کردیا ہے۔

یہاں دسمبر میں سورج کی روشنی صرف 3 گھنٹے تک رہتی ہے جبکہ جون میں یہ دورانیہ 21 گھنٹے تک ہوتا ہے۔

مگر ان سب مشکلات کے باوجود سردیوں میں کافی سیاح اس کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور پلکوں کے جمنے کی پروا نہیں کرتے۔

Read Comments