Dawn News Television

شائع 29 مارچ 2021 04:11pm

'سیاہ و سفید یونیفارم پر صرف وکلا کا حق ہے'

پاکستان کی تین بار کونسلز نے مشترکہ طور پر وکلا کے یونیفارم سے مشابہہ یونیفارم استعمال کرنے والے افراد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر سیاہ و سفید یونیفارم کا استعمال بند کردیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کے وکلا سیاہ رنگ کے سوٹ پر سفید شرٹ پہنتے ہیں اور بعض ممالک میں وکلا سر پر خصوصی ٹوپی بھی پہنتے ہیں۔

دنیا بھر کے وکلا کا یونیفارم ایک حد تک مشترک ہوتا ہے، تاہم ان میں کچھ تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں، برصغیر پاک و ہند میں انگریز دور میں وکلا کا لباس متعارف کرایا گیا اور جدید دنیا میں بھی انگریزوں نے ہی وکلا کا لباس متعارف کرایا تھا۔

کئی ممالک میں وکلا کے یونیفارم اور ججز کے لباس سے متعلق ’ڈریس کوڈ‘ کے ضوابط بھی متعین کیے گئے اور پاکستانی پارلیمنٹ نے بھی 2019 میں ایک ترمیمی بل کی منظوری کے ساتھ عدالتوں کو ’ڈریس کوڈ‘ کے ضوابط اپنی مرضی سے بنانے کی اجازت دی تھی۔

حالیہ دور میں پاکستانی وکلا سیاہ رنگ کے سوٹ پر سفید شرٹ پہنتے ہیں، تاہم وکلا کو شکایت ہے کہ ان کے یونیفارم جیسا لباس دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد بھی استعمال کرتے ہیں، اس لیے اب انہوں نے وکلا جیسا لباس پہننے والے دیگر افراد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی طرح کا لباس استعمال کرنا بند کریں۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور بلوچستان کے علاوہ دارالحکومت اسلام آباد کی بار کونسل نے خصوصی خطوط کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہوٹلز کے اسٹاف سمیت دیگر افراد کو وکلا جیسا لباس پہننے سے روکیں۔

اسی حوالے سے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد بار کونسل کے سیکریٹری مرزا محمد امین طاہر نے تصدیق کی کہ انہوں نے دارالحکومت کے چیف کمشنر کو خط لکھ کر وکلا کے یونیفارم سے ملتے جلتے یونیفارم کا عام استعمال روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وکلا کا یونیفارم اگرچہ پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے، تاہم یہ عالمی سطح پر وکلا کو دیا گیا حق ہے، جو صدیوں سے وکلا کے پاس ہے۔

ان کے مطابق یہ بدقسمتی ہے کہ پہلے کسی بار کونسل نے اس معاملے پر کوئی بات نہیں کی مگر اب اسلام آباد بار نے دیگر دو صوبوں کے ساتھ مل کر وکلا جیسے یونیفارم کو دیگر شعبوں میں استعمال کرنے سے روکنے کی مہم شروع کی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اسلام آباد بار کونسل کی حد دارالحکومت تک ہی ہے اور وہ ملک کے دیگر شہروں اور صوبوں میں ایسے یونیفارم کے استعمال کو روکنے کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔

مرزا محمد امین طاہر کے مطابق اسلام آباد بار کونسل ہولی وڈ یا بولی وڈ سمیت دیگر شعبوں کی شخصیات کو وکلا کے یونیفارم سے ملتا جلتا لباس پہننے پر نوٹس جاری نہیں کر سکتا کیوں کہ وہاں ان کی حدود نہیں۔

مرزا محمد امین طاہر جو کہ آج کل کورونا وائرس کا شکار ہیں، انہوں نے قرنطینہ سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پنجاب اور بلوچستان بار کونسل سے مذکورہ معاملے پر رابطے میں ہیں۔

اسی طرح پنجاب بار کونسل کے ایک عہدیدار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے صوبے بھر کے ہوٹل اسٹاف اور دیگر شعبوں کے افراد کی جانب سے وکلا جیسا یونیفارم استعمال کرنے کو روکنے سے متعلق حکومت کو خط لکھا ہے۔

پنجاب بار کونسل کے عہدیدار کے مطابق سیاہ و سفید رنگ پر مشتمل خصوصی لباس صرف وکلا کا حق ہے اور اس جیسا یونیفارم دوسرے شعبوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اسی حوالے سے بلوچستان بار کونسل کے ایڈیشنل سیکریٹری علی اکبر نے بتایا کہ انہیں شکایات موصول ہوئی تھیں کہ بعض ہوٹلز کا اسٹاف وکلا کا یونیفارم استعمال کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہوٹل کا اسٹاف تھوڑا مختلف یونیفارم استعمال کرتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں مگر یہ غلط بات ہے کہ وکلا کے یونیفارم کو ہوٹل ملازمین استعمال کریں۔

انہوں نے کہا سیاہ و سفید رنگ پر مشتمل یونیفارم صرف وکلا کا حق ہے اور دنیا بھر میں مخصوص لباس صرف وکلا ہی استعمال کرتے ہیں۔

تینوں بارز کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں اور شہری حکومتوں نے ان کے خطوط پر کوئی ایکشن نہ لیا تو تینوں بارز کچھ ہفتوں بعد میٹنگ میں نیا لائحہ عمل طے کریں گے۔

تینوں بارز کی جانب سے صوبائی اور شہری حکومت کو جاری کیے گئے خصوصی خطوط چند دن قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تھے اور لوگوں نے وکلا کے ایسے مطالبے پر خوب میمز بنائی تھیں۔

زیادہ تر لوگوں کا کہنا تھا کہ اب وکلا دوسروں کو یہ بھی بتائیں گے کہ انہیں کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں، ساتھ ہی کئی لوگوں نے وکلا کے مطالبے پر ان کا مذاق بھی اڑایا تھا۔

وکلا کے مطالبے کے بعد بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ ہوٹل کے ویٹرز اور دیگر اسٹاف کے بجائے وکلا کو اپنا یونیفارم تبدیل کرلینا چاہیے، بعض افراد نے وکلا کے کردار پر بھی بات کی اور کہا کہ قانون کے رکھوالے کبھی کبھی ہوٹل ملازمین جیسا رویہ بھی اختیار نہیں کر پاتے۔

Read Comments