Dawn News Television

شائع 12 اپريل 2021 06:59pm

کراچی میں کمرشل ٹیلر شاپ چلانے والے مخنث افراد کے چرچے

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے مصروف کاروباری علاقے میں خواتین کے کپڑوں کی سلائی کی دکان چلانے والی ٹرانس جینڈرز خواتین کی تعریفیں کی جا رہی ہیں۔

مخنث افراد نے صدر ٹاؤن کے کاروباری علاقے محمد علی (اے ایم ) جناح روڈ پر حال ہی میں دکان کھولی تھی، جہاں پر کام کرنے والے تمام افراد تیسری جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔

خواتین کے لیے دیدہ زیب اور فیشن ایبل لباس تیار کرنے والی ٹیلر شاپ کی بانی 35 سالہ جیا نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ خواتین خوشی سے مرد حضرات کے بجائے انہیں کپڑے دی رہی ہیں۔

جیا کا کہنا تھا کہ کراچی میں عام طور پر خواتین کے کپڑے سلنے والے درزی مرد حضرات ہوتے ہیں اور بعض خواتین مرد حضرات کو کپڑے دیتے وقت پریشانی کا شکار رہتی ہیں مگر ان کی جانب سے دکان کھولے جانے کے بعد خواتین کی پریشانی کم ہوئی۔

جیا کی دکان پر آنے والی خواتین نے بھی تسلیم کیا کہ وہ مرد درزیوں کے مقابلے مخنث افراد کی دکان پر خود کو زیادہ مطمئن محسوس کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں مخنث افراد کی پہلی کمرشل ٹیلر شاپ پر کام کا آغاز

جیا نے کچھ ہفتے قبل ہی ایک سماجی تنظیم کی معاونت سے ایم اے جناح روڈ پر کرائے کی دکان حاصل کرکے کاروبار شروع کیا تھا۔

اپنا کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے جیا نے بتایا کہ ابتدائی طور پر انہیں کرائے پر دکان دینے سے منع کردیا گیا تھا اور بڑی محنت کے بعد ایک شخص انہیں کرائے پر دکان دینے کے لیے راضی ہوا۔

جیا کی خواہش ہے کہ وہ اپنی دکان کو بوتیک میں تبدیل کریں اور وہ مغربی و مشرقی فیشن کے امتزاج سے بنے لباس خواتین کے لیے تیار کریں۔

جیا کے ساتھ دیگر دو مخنث افراد بھی ان کے ساتھ ٹیلر شاپ پر کام کرتے ہیں اور حلال کمائی کرنے پر ان کی تعریفیں بھی کی جا رہی ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مخںث افراد کی تعداد 10 ہزار تک ہے، تاہم مخنث افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ایسے افراد کی تعداد 3 لاکھ سے زائد ہے۔

پاکستان میں مخنث افراد کو تیسری جنس کی قانونی حیثیت حاصل ہے، عدالتی حکم کے بعد ان کے شناختی کارڈ پر تیسری جنس لکھا جاتا ہے۔

ملک میں مخنث افراد کو ووٹ دینے اور سیاست میں حصہ لینے سمیت وہ تمام حقوق حاصل ہیں، جو دیگر عام شہریوں کو حاصل ہیں۔

Read Comments