مصر میں سابق فوجی نئے گورنرز تعینات
قاہرہ: مصر کے عبوری صدر نے 18 صوبوں کیلیے نئے گورنرز کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے جن میں سے آدھے ریٹائرڈ فوجی جنرلز ہیں اور اس کے ساتھ ہی مصر میں ایک بار پھر اثرورسوخ عام آدمی سے فوج کو منتقل ہو گیا ہے۔
مصر کے برطرف صدر محمد مرسی کی جانب سے ان کے ایک سالہ دور اقتدار میں عام شہریوں کو صوبوں کا گورنر مقرر کیا گیا تھا جن میں سے اکثر کا تعلق اخوان المسلمون سے تھا۔
مرسی دور کی یہی خاصیت اسے سابق آمر حسنی مبارک کے دور سے ممتاز کرتی تھی جہاں اس سے قبل مبارک دور میں بھی ان عہدوں پر ریٹائرڈ فوجی اور پولیس افسران فائز تھے۔
نئے گورنر مصر کے عبوری صدر عدلی منصور سے اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے جنہیں اس وقت فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے جس نے مرسی حکومت کے خلاف ایک عرصے سے جاری احتجاج کے بعد انہیں عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔
ناقدین نے گورنرز کے لیے اعلان کردہ ناموں کو ایک قدم پیچھے ہٹنے سے تعبیر کیا ہے۔
ایک نامور بلاگر علیٰ عبدالفاتح نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں اسے مبارک عہد کا اقدام قرار دیا ہے، انہوں کہا کہ ہم مبارک جیسے ہر شخص کی مذمت کرتے ہیں اور مرسی کو عہدے سے ہٹانے والے آرمی جنرل عبدالفاتح ال سیسی بھی مبارک کی طرح ہی ہیں۔
مرسی کے اقتدار میں آخری ایام خاصے متنازع رہے تھے جہاں ان کی جانب سے سابق مسلح گروپ گاما اسلامیہ کے رکن کو لکسر کا گورنر تعینات کرنے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، اس تنظیم کے ارکان پر الزام ہے کہ انہوں نے 1997 میں 58 سیاحوں کو قتل کر دیا تھا۔
مرسی کی جانب سے اخوان المسلمون کے ارکان کو صوبائی گورنر بنانے پر بھی سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے جہاں مرسی مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن مرسی حکومت نے ہمیشہ ان الزامات کی سختی سے مذمت کی تھی، بعدازاں یہی الزامات ان کے خلاف بغاوت کا موجب بنے تھے۔
صدارتی محل میں ہونے والی ایک میٹنگ میں صدر عدلی منصور نے گورنرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ترجیح عوام کی خدمت ہونی چاہیے جہاں وہ عوام کو سستی اشیا کی فراہمی اور سڑکوں پر امن و امان کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔
دوسری جانب منگل کو ایک بار پھر مرسی کے حامیوں اور سیکیورٹی فورسز میں جھڑپیں ہوئیں تاہم اس میں کسی بھی جان نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
قاہرہ میں حکومتی عمارتوں کے سامنے ہونے والی جھڑپ میں پولیس نے سابق صدر کے حامیوں کو منتشر کرنے کیلیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
سیکیورٹی آفیشلز اور عینی شاہدین نے بتایا کہ منگل کو جھڑپ اس وقت شروع ہوئی جب سابق صدر محمد مرسی کی بحالی کے مطالبے کیلیے جمع ہونے والے مظاہرین نے وزارت داخلہ کے دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی جہاں ان کا کہنا ہے کہ اخوان کے رہنماؤں کو رکھا گیا ہے۔
مظاہرین نے پولیس کو روکنے کیلیے پتھراؤ بھی کیا تاہم اسی موقع پر مقامی رہائشی افراد سیکیورٹی فورسز کے ساتھ شامل ہو گئے جہاں ایک جانب پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے تو دوسری جانب رہائشی افراد کی جانب سے سباق صدر کے حامیوں پر پتھراؤ کیا گیا۔