دنیا

روایتوں سے لڑتی افغان خواتین فنکار

آزادی کا مطلب ہے کہ آپ ایک انسان کے طور پر جی سکیں'۔'

کابل: تنازعات عام طور پر ٹی وی ٹیلنٹ شو کے ججز کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔

آخر ان کے ہاتھ میں بہت سے خواہشمند افراد کا مستقبل ہوتا ہے- وہ کسی کا کیریئر بنا سکتے ہیں اور کسی کا شروع ہونے سے پہلے ہی ختم بھی کر سکتے ہیں، تاہم آریانہ سید کے لئے یہ صرف ایک کام ہی نہیں بلکہ افغانستان کے مستقبل کی لڑائی ہے۔

اٹھائیس سالہ پرکشش گلوکارہ، کابل میں مئی میں شروع ہونے والی عالمی ہٹ سیریز 'دی وائس' میں ایک جج کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں- اس سیریز نے شروع ہوتے ہی جہاں ان گنت شائقین کی توجہ حاصل کر لی ہے وہیں اسے بہت سے لوگوں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔

ایک روایتی اسلامی ملک میں آریانہ، خواتین کی آزادی کی علامت ہیں- لیکن ساتھ ہی ساتھ انھیں اپنی جان کا مسلسل خطرہ بھی ہے اور انہیں ہر وقت یہ دھڑکا بھی لگا رہتا ہے کہ کہیں شدت پسند انہیں اغوا نہ کر لیں۔

کابل کے مضافات میں واقع شو کے سیٹ پر، جہاں پرائیویٹ ٹی وی چینل ٹولو کے لئے شو کی عکسبندی کی جاتی ہے، مسلح گارڈز کی تعداد شرکاء سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔

اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے آریانہ نے بتایا کہ وہ یہاں خواتین کے لئے آئی ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ خواتین کو حقوق ملیں، بات کرنے کے، چلنے پھرنے کے اور اپنی مرضی سے آنے جانے کے۔

ان کا کہنا تھا کہ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین کپڑے اتاریں بلکہ اپنے سروں پر سے دوپٹہ بھی اتاریں- آزادی کا مطلب ہے کہ آپ ایک انسان کے طور پر جی سکیں۔

انہیں اندازہ ہے کہ پورا ملک ان کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ پروگرام کے شرکاء کے ہر گانے، ہر حرکت کو نوٹ کر رہی ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب انہوں نے پروگرام میں شریک ایک پندرہ سالہ لڑکے کو اس کی کارکردگی پر 'آئی لو یو' کہا تو ایک شور مچ گیا- افغانستان میں ایسا کہنا معمولی بات نہیں۔

آریانہ افغانستان میں پیدا ہوئیں لیکن بچپن ہی میں وہ پاکستان منتقل ہو گئیں جہاں سے کچھ عرصے بعد وہ یورپ چلی گئیں- اب وہ اپنا وقت کابل اور لندن میں گزرتی ہیں۔

افغانستان کی سب سے بڑی اسٹارز میں سے ایک، آریانہ نے ملاؤں کے خلاف آواز اٹھائی ہے جو خواتین کو گھروں میں رکھنا چاہتے ہیں اور انھیں اپنے لئے خود کمانے کی آزادی دینے کے مخالف ہیں۔

اسی تناظر میں آریانہ اکثر ایک گانا گاتی ہیں جس کے بول ہیں 'کیونکہ میں ایک عورت ہوں اس لئے میں غلام ہوں'- اس گانے کے پس منظر میں برقع پوش خواتین کو دکھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے کوئی حقوق نہیں لہٰذا وہ ایک ایسی مثال بننا چاہتی ہیں جو مسلسل لڑ رہی ہیں- ان کو معلوم ہے کہ ان کے اس موقف کی وجہ سے انہیں زندگی میں مسلسل خطرات لاحق رہیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں اکثر ایسے آن لائن پیغامات ملتے رہتے ہیں جن میں لوگ انہیں جان سے مار دینے یا ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دینے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔

انھیں اغوا ہونے سے بہت ڈر لگتا ہے- ان کا کہنا ہے کہ وہ اغوا ہونے کے مقابلے میں مر جانے کو ترجیح دیں گی- پچھلے سال ایک نوجوان افغان اداکارہ، بنفشہ کو خنجر کے وار سے قتل کر دیا گیا تھا- چند اسلامی شددت پسندوں نے حال ہی میں مغربی ہٹ شوز جیسے ایکس فیکٹر یا پاپ آئڈل کے خلاف جہاد کا بھی اعلان کیا ہے۔

ایک قانون ساز نے تو ایسے پروگراموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے چونکہ ان کے خیال میں یہ پروگرام توہین آمیز اور فحش ہوتے ہیں۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کابل کی مسجد پل خشتی کے مولانا عنایت اللہ بلیغ نے کہا کہ اسلام میں ایسی عورتوں یا لڑکیوں کی گنجائش نہیں جو گلوکاری، ناچ یا ایکٹنگ کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی ثقافت اور روایات، ایسی چیزوں کی اجازت نہیں دیتا- ان کے خیال میں خواتین کو اپنے جسم کو پوری طرح ڈھانپ کر صرف آنکھیں اور ہاتھ کھلے رکھنے کی اجازت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جو خواتین یا لڑکیاں ایکٹنگ یا گلوکاری کرتی ہیں وہ اپنی عزت گھٹاتی ہیں۔

ایکٹریس فرشتہ کاظمی کا یہ ماننا ہے کہ ان کے پیشے کی وجہ سے انھیں بہت سی مشکلات درپیش ہوتی ہیں- اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ خواتین اداکاروں کو طوائف سمجھتے ہیں- انہوں نے بتایا کہ انہیں اکثر لوگ فون کر کے پوچھتے ہیں کہ آیا وہ میسر ہیں؟