کونڈور ایئریل کے چیف ایگزیکٹیو فریڈ کلبرسٹن نے بتایا کہ مچھروں کے خاتمے کے لیے تیار کیا جانے والا یہ ڈرون طیارہ تقریباً ایک کلوگرام وزنی اور ڈھائی فٹ لمبا ہے، جو نوّے منٹ کی پرواز کرتے ہوئے 200 میل کا فاصلہ طے کرسکتا ہے۔ اس میں تھرمل کیمرے بھی نصب ہیں، جن کے ذریعے ایسے تالابوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہےجہاں مچھروں کی افزائش ہورہی ہو۔
انسپکٹرز اس طیارے کو کمپیوٹرز کے ذریعے آپریٹ کرنے کے لیے تربیتی سرٹیفکیشن کورسز کررہے ہیں اور مقامی حکام فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی سے ڈرون کو اُڑانے کی منظوری کی کوشش کررہے ہیں۔
فریڈ کلبرسٹن نے کہا کہ ”ہم اسے کسی کی نگرانی کے لیے استعمال کرنے نہیں جارہے ہیں۔“
کونڈور ایئریل جنوبی فلوریڈا میں قائم مینوفیکچررز ”پریوریا روبوٹک“ کا ایک ڈویژن ہے، جس نے 2010ء میں 28 لاکھ ڈالرز کا کینیڈا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت پریوریا روبوٹک افغانستان میں دشمنوں کی حرکات پر نظر رکھنے والا ڈرون فراہم کررہا ہے۔
طوفان یا بڑی سمندری لہروں بننے والے تالاب میں مچھر انڈے دیتے ہیں۔ مچھروں کے خاتمے کے لیے قائم ادارے کے چالیس انسپکٹروں کا کام یہ ہے کہ وہ 140 مربع میل کے رقبے میں پھیلے ہوئے 42 جزائر پرتیزی سے پھیل جائیں، انسپکٹروں کے پاس چند دن ہوتے ہیں اور ان دنوں میں وہ انڈے مچھروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں جو تیزی سے بیماریاں پھیلاتے ہیں۔
جب ڈرون مچھروں کی افزائش کی جگہوں کا پتہ لگالیں گے تو ایک انسپکٹر اس مقام پر جاکر انڈوں کا ٹیسٹ کرے گااس کے بعد ڈسٹرکٹ کے چار ہیلی کاپٹروں کو وہاں بھیج کر اسپرے کے ذریعے ان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
مائیکل ڈوئیل نے کہا کہ ”ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہ ٹیکنالوجی حقیقت میں کم گہرے، یا پھر کھلے یا منگروز سے ڈھکے ہوئے پانی میں کام کرسکے گی۔ اور اس کے ذریعے انسپکٹروں کے مقابلے میں کتنے بڑے رقبے پر کام ہوسکے گا۔
ڈینگی پھیلانے والے مچھر چونکہ چھوٹے اور عام نظروں سے پوشیدہ تالابوں میں انڈے دیتے ہیں، اس لیے ڈرون کے ذریعے ان کی نشاندہی ممکن نہیں۔