Dawn News Television

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2021 11:59am

’ڈاکٹر نعمان نیاز کے ساتھ یہ پرانا مسئلہ ہے‘

جہاں ایک طرف ٹی20 ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی لگاتار دوسری کامیابی پر خوشیاں منائی جارہی تھیں، وہیں دوسری طرف پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی شعیب اختر کے ساتھ پی ٹی وی پر ہونے والے افسوسناک رویے سے متعلق خبریں بھی سامنے آنے لگیں۔

پی ٹی وی کے پروگرام گیم آن ہے کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز کی جانب سے لائیو شو میں اسپیڈ اسٹار کے ساتھ تلخ رویہ اپنایا گیا اور انہیں شو سے چلے جانے کا کہہ دیا گیا۔

ایسا کیوں ہوا اس حوالے سے شعیب اختر نے ایک مختصر ویڈیو کلپ ٹوئٹر پر شیئر کی اور مکمل صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کیا۔

یہ معاملہ تو یقیناً افسوسناک ہے اور اس کی وجوہات جاننے کے لیے پی ٹی وی کی انتظامیہ نے ایک کمیٹی بھی بنالی ہے۔

لیکن شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ شعیب اختر وہ پہلے کھلاڑی نہیں ہیں جن کے ساتھ میزبان نعمان نیاز کی جانب سے ایسا رویہ اختیار کیا گیا ہے۔

روزنامہ ڈیلی ٹائمز میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق یہ ڈاکٹر نعمان کا پرانا مسئلہ ہے کہ وہ ٹی وی پروگرام کو ون مین شو کی حیثیت سے چلانا چاہتے ہیں۔

اسی خبر میں بتایا گیا کہ 2017ء میں ڈاکٹر نعمان کو ڈائریکٹر اسپورٹس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا کیونکہ ان پر بدانتظامی، بے قاعدگیوں اور سرکاری ٹی وی کو ون مین شو کی طرح چلانے کا الزام تھا۔

ماضی میں ایک ویڈیو کلپ پہلے بھی وائرل ہوچکا ہے جس میں ڈاکٹر نعمان نیاز سابق کھلاڑی ثقلین مشتاق کو اپنے شو میں غدار کہہ رہے تھے اور ان کی کوچنگ کا مذاق اڑا رہے تھے۔

ایکسپریس ٹریبون میں شائع ہونے والے مضامین میں ڈاکٹر نعمان کے پروگرام میں ہونے والی بدانتظامیوں کی جانب توجہ بھی دی گئی۔

اس مضمون میں لکھاری نے سوال اٹھایا کہ جب آپ کسی غیر ملکی کو اپنے پروگرام میں بلاتے ہیں تو کوشش کرنی چاہیے کہ اس زبان میں پروگرام ہو جو اس کو سمجھ بھی آئے۔

2015ء میں لکھے جانے والے اس مضمون میں لکھاری نے پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلے جانے والی سیریز کا حوالہ دیا۔ پی ٹی وی نے اس سیریز پر بطور ماہر سنتھ جے سوریا کو بلوایا ہوا تھا مگر حیران کن طور پر پروگرام کا اکثر حصہ اردو زبان میں ہورہا تھا۔ یعنی جے سوریا اس پروگرام سے عملاً لاتعلق نظر آتے اور اپنے موبائل میں مصروف رہتے۔ اب آپ خود بتائیے کہ ٹی وی پروگرام میں آپ نے کبھی کسی کو موبائل چلاتے ہوئے دیکھا ہے، اور اگر ایسا ہو بھی رہا ہے تو ڈائریکٹر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ایسا منظر ٹی وی اسکرین پر نہ آسکے۔

2015ء میں ہی دی نیشن نے ایک تحریر شائع کی، جس میں کہا گیا کہ ڈاکٹر نعمان پی ٹی وی پر اس طرح پروگرام کرتے ہیں جیسے اپنے دوستوں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوں۔

اسی تحریر میں لکھا گیا کہ ’ڈاکٹر نعمان کو اکثر یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کن باتوں کو پروگرام میں کہنا چاہیے اور کن کو نہیں۔ ایک پروگرام میں وہ بتانے لگے کہ ’سابق کھلاڑی محمد وسیم مالی طور پر کن کن مشکلات سے دوچار ہوئے، اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی پروگرام میں محمد وسیم بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اگر مٰیں وسیم کی جگہ ہوتا تو کبھی نہیں چاہتا کہ میرے ذاتی مسائل کو یوں قومی ٹی وی پر بیٹھ کر بیان کیا جائے‘۔

شعیب اختر کے ساتھ ہونے والے معاملے کو کسی حد تک ٹھنڈا کرنے کے لیے ڈاکٹر نعمان نے ایک تعریفی ٹوئٹ کی، مگر وہاں بھی لوگوں کی جانب سے انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

آنے والے دنوں میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ تو ہمیں معلوم ہو ہی ہوجائے گا، مگر اس واقعے سے ایک بات سمجھ آچکی ہے کہ پاکستانی شائقین اپنے ہیروز کو اس طرح رسوا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔


فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس fahimpatel00@gmail.com ہے۔ آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@

Read Comments