نقطہ نظر

1 - جب پاکستان بدل گیا

مجھے پتہ ہے لوگ اب پی ٹی وی کیوں نہیں دیکھتے- چڑیاں جو اڑ گئیں

یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ ہے


سنہ 1979 ایک فیصلہ کن سال تھا- اگر کسی کو ایک سال کا انتخاب کرنا پڑے جس میں پاکستان کی سیاست اور ثقافت کا جھکاؤ مذہبی ذہنی خلل کی طرف ہوا، تو وہ یقیناً سنہ 1979 کو ہی چنے گا-

اس فیصلہ کن سال کا آغاز، سنہ 1977 میں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف ان کے اپنے منتخبہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی بغاوت سے ہوا-

پی ٹی وی پر قوم سے اپنے ابتدائی خطابات میں سے ایک کے دوران، جنرل ضیاءالحق نے تحریر شدہ تقریر اچانک روک کر کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے اس بات کا دعویٰ کیا کہ وہ جانتے ہیں لوگوں نے پی ٹی وی دیکھنا کیوں چھوڑ دیا-

"مجھے پتہ ہے لوگ اب پی ٹی وی کیوں نہیں دیکھتے- چڑیاں جو اڑ گئیں"-

نۓ الیکشن کے بہت سے وعدوں کے دوران (جن میں سے کوئی بھی وہ پورا نہ کر سکے)، ضیاءالحق نے جماعت اسلامی اور دیگر بھٹو مخالف قدامت پرست سیاست دانوں کو مارشل لاء طرز حکومت میں شامل ہونے پر اصرار کیا-

جماعت کے ارکان کو وزارت معلومات چلانے کی کھلی چھٹی تھی، اور اس وزارت نے سب سے پہلا اقدام، پی ٹی وی اور سنیما کے لئے نئی سنسر پالیسی وضع کرنے کا کیا-

بیشمار فنکاروں، پروڈیوسروں اور ڈرامہ نگاروں پر، پی ٹی وی پر آنے کی پابندی عائد کر دی گئی (کیوں کہ وہ بھٹو کے حمایتی تصور کیے جاتے تھے)-

ایسی ہی ایک فہرست، پاکستانی فلموں، گانوں اور پی ٹی وی ڈراموں کی بھی بنائی گئی جن کو دوبارہ چلاۓ جانے پر پابندی عائد کر دی گئی- ان پر بیہودہ، عریاں، اور بے حیائی کا لیبل لگا دیا گیا-
مثال کے طور پر، ناہید اختر کا گانا "تترو تارا تارا" اور عالمگیر کا گانا "دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں" کو بیہودہ قرار دیا گیا-

جبکہ شوکت صدیقی کا ڈرامہ "خدا کی بستی"، جو کراچی کی کچی آبادیوں کی غربت اور جرائم کے بارے میں سنہ 1973 میں صدیقی نے لکھا تھا، اسے دوبارہ چلانے پر پابندی لگا دی گئی کیوں کہ جماعتی سنسر بورڈ کے خیال میں یہ ڈرامہ اشتراکیت کی عکاسی کرتا ہے- ایک ایسا نظریہ جو جماعتیوں کے خیال میں کافرانہ تھا-

نا صرف یہ بلکہ نئی وزارت اطلاعات نے پی ٹی وی آرکائیو اور ویڈیو لائبریری سے بھٹو کی تمام تقریریں ہٹا دینے کا حکم دیا اور ساتھ ہی نیوز بلیٹن اور ٹاک شوز میں 'بھٹو'، 'جمہوریت' اور اشتراکیت جیسے الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کر دی-

رفتہ رفتہ، ضیاءالحق نے بھٹو مخالف پاکستان نیشنل الائنس کے الیکشن نعرے "نظام مصطفیٰ" کو اپنانا شروع کر دیا- انہوں نے یہ تاثر دیا کہ پاکستانی عوام بھی یہی چاہتی ہے- اس تاثر کو انہوں نے نۓ انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے لئے استعمال کیا- انکا یہ دعویٰ تھا کہ اس سے پہلے کہ لوگوں کا نۓ الیکشن کا سامنا ہو، موجودہ فوجی حکومت کو 'معاشرے اور سیاست کو بدعنوانی اور غیر اسلامی عناصر سے پاک کرنا ہو گا '-

سنہ 1978 میں ضیاء الحق کی اسلامی پالیسیوں کے رسمی اعلان سے پہلے ہی جماعتی وزارتوں نے کئی ٹی وی اشتہارات، گانوں اور فنکاروں پر پابندی عائد کر کے اور بہت سی ایسی فلموں میں (جن کو سابقہ سنسر بورڈ نے منظور کیا تھا) کاٹ چھانٹ کر کے آنے والے وقتوں کے لئے راستہ صاف کر دیا تھا-

ارادہ یہ تھا کہ اسلامی قوانین اور ثقافت کے مکمل اطلاق کے لئے میدان تیار کیا جاۓ- جماعت کے رہنما اور عالم، ابوالاعلی مودودی کے مقالے 'اسلامی ریاست کی بنیاد' کے مطابق یہ پہلے قدم تھا-

ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کی ابتدائی تشکیل میں مودودی کا کردار اہم تھا- ضیاء الحق کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جوان افسروں کو مودودی کی کتابیں تقسیم کیا کرتے تھے-

سنہ 1979 تک جماعت اسلامی کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ ضیاء الحق کے ذریعہ انہوں نے ریاستی اقتدار کے میدان میں اپنے قدم جما لئے ہیں- حالانکہ ان کے رہنما مودودی کے اصلی مقالے کے مطابق، اسلامی انقلاب ایک ایسے سماج کے ذریعہ لایا جا سکتا ہے جسے نظم و ترتیب کے ساتھ اسلامائز کیا جاۓ- جماعت کی پنجابی قیادت نے اس عمل کو تیز کرنے کی کوشش کرتے ہوے ضیاء الحق پر اسلامی قوانین جلد لاگو کرنے کے لئے زور دیا-

اور پھر سنہ 1979 میں مودودی کا انتقال ہو گیا-

جیسے ہی ضیاء الحق نے بیمثال اسلامی قوانین رائج کرنا شروع کئے، سوسائٹی جیسے سکتے میں آگئی- وہ ایسی غیر یقینی حالت میں پھنس گئی جہاں اسے نہ اس بات کا احساس تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور نہ اس بات کا اندازہ کہ کیا ہونے والا ہے-

سوسائٹی کی ایسی غیر یقینی اور جامد حالت کا اندازہ، ان واقعات کے حوالے سے لوگوں کے ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے جو سنہ 1979 میں رونما ہوئے-

جاری ہے..


ترجمہ: ناہید اسرار

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔