Dawn News Television

شائع 25 مئ 2022 09:30pm

جین ایڈیٹنگ کے بعد ٹماٹروں میں وٹامن ڈی شامل کرنے کا تجربہ کامیاب

برطانوی ماہرین نے ٹماٹروں کی جین ایڈیٹنگ کرکے ان میں وٹامن ڈی شامل کرنے کا کامیاب تجربہ کرلیا، جس کے بعد اب ممکنہ طور پر ٹماٹروں کو وٹامن ڈی حاصل کرنے کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکے گا۔

طبی جریدے ’نیچر‘ میں شائع برطانوی ریاست انگلینڈ کی جون انس یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق ٹماٹروں کی کرسپر کاس 9 جین ایڈٰیٹنگ ٹیکنالوجی کی ذریعے ساخت تبدیل کردی گئی۔

ماہرین نے مذکورہ طریقے کے تحت ٹماٹروں کے پتوں میں موجود پرووٹامن ڈی تھری کو کولیسٹرول میں تبدیل کرنے والے بیکٹیریاز کو بلاک کیا، جس کے بعد اب پودہ ٹماٹروں میں وٹامن ڈی تھری کو منتقل کرے گا۔

اگر پودے کے پتے پرووٹامن ڈی تھری کو کولیسٹرول میں تبدیل کرنے کے بجائے وٹامن ڈی تھری کی صورت میں پکے ہوئے ٹماٹروں میں منتقل کرتے ہیں تو ایک ٹماٹر میں 28 گرام مچھلی یا پھر دو انڈوں کے برابر وٹامن ڈی آجائے گی۔

ماہرین کی جانب سے کامیاب تجربے کے بعد اب برطانوی حکومت زرعی پیداوار کے قوانین میں تبدیلیاں کرکے نئے ٹماٹروں کی پیداوار کی مںظوری دے گی اور دیکھا جائے گا کہ ٹماٹروں میں وٹامن ڈی تھری منتقل ہوتی ہے یا نہیں۔

عام طور پر دنیا بھر میں وٹامن ڈی تھری کو سورج کی روشنی یا شعاعوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور سورج کی روشنی سے ہی ٹماٹروں کے پتے وٹامن ڈی تھری حاصل کرتے رہتے ہیں مگر جب پودے میں ٹماٹر تیار ہوجاتے ہیں تو وٹامن ڈی تھری کولیسٹرول یا دیگر بیکٹیریاز میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

مگر اب سائنسدانوں نے ٹماٹروں کے پتوں میں جین ایڈیٹنگ کرکے وٹامن ڈی تھری کو اپنی صورت میں ہی ٹماٹر میں موجود رہنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

’بی بی سی‘ کے مطابق جلد ہی برطانوی ریاست انگلینڈ میں زرعی اصلاحات کرکے جین ایڈٹ شدہ ٹماٹروں کی افزائش کا کام شروع کردیا جائے گا، جس کے بعد ان میں وٹامن ڈی تھری کی مقدار دیکھی جائے گی۔

اگر تجربہ کامیاب ہوگیا اور ٹماٹروں میں وٹامن ڈی تھری پائی گئی تو یہ میڈیکل کی تاریخ کا سب سے انوکھا تجربہ ہوگا اور لوگ ٹماٹروں کو دوائی کے طور پر بھی استعمال کرنے لگیں گے۔

وٹامن ڈی کی کمی جہاں ہڈیوں میں درد، مسلز کے سکڑنے، جوڑے کے مسائل اور دانتوں میں تکلیف کا سبب بنتی ہے، وہیں یہ بانجھ پن سمیت کینسر کے امکانات بڑھانے کا سبب بھی بنتی ہے۔

دنیا بھر میں کروڑوں لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں اور لوگ اس سے بچنے کے لیے فوڈ سپلیمینٹری اور دوائیاں لیتے رہتے ہیں۔

Read Comments