پاکستان کرکٹ، ہاکی کے نقش قدم پر
ابھی شائقین کرکٹ ہاکی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے کوالیفائی نہ کرنے کے صدمے سے نکل بھی نہ پائے تھے کہ قومی کرکٹ ٹیم نے 'ہم کسی سے کم نہیں' کے مصداق اس سے بھی بدتر کارکردگی دکھاتے ہوئے وہ کر دکھایا جس کی یقیناً کسی کو امید تک نہ تھی۔
گرین شرٹس نے زمبابوے کے خلاف ہونے والی حالیہ سیریز میں پہلے ایک روزہ اور پھر ٹیسٹ میچ میں شکست کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا۔
اگر اعداد و شمار کے ضمرے میں دیکھا جائے تو یقینی طور پر اس دورے کو ناکام یا خراب تصور نہیں کیا جائے گا لیکن ایک ایسی ٹیم کے ہاتھوں ایک روزہ اور اس سے بڑھ کر ٹیسٹ میچ میں شکست کہ جس کو ہندوستان کی تقریباً دوسرے درجے کی ٹیم نے کلین سوئپ کی خفت سے دوچار کیا ہو، یقیناً کرکٹ سے محبت کرنی والی اس قوم کے لیے ناقابل قبول ہے۔
ایک حیران کن ٹیم کے اعلان کے ساتھ اس دورے کی ابتدا ہی غلط انداز سے ہوئی جہاں ایک آسان حریف کے خلاف نئے لڑکوں کو موقع دینے کے بجائے انہی نام نہاد سینئرز کو جگہ دی گئی حالانکہ اس سے قبل ہندوستان کی مثال ہمارے سامنے تھی جس نے اپنی ٹیم کے چھ سے سات اہم اور مستقل ارکان کو آرام کا موقع فراہم کرتے ہوئے نوجوان کھلاڑیوں کو چانس دیا تھا اور ویرات کوہلی کی زیر قیادت اس نسبتاً ناتجربہ کار ٹیم نے میزبان کے خلاف ایک روزہ میچوں میں 5-0 سے کلین سوئپ مکمل کیا۔
دورے خصوصاً ٹیسٹ میچز کا واحد مثبت پہلو ٹیم میں چند نوجوان کھلاڑیوں کی شمولیت اور ان کی تسلی بخش کارکردگی تھی۔
خرم منظور نے پہلے میچ میں ناکامی کے باوجود شاندار انداز میں کم بیک کیا اور دوسرے ٹیسٹ کی دونوں اننگ میں نصف اسکور کر کے ناصرف اعتماد کا ثبوت دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سلیکٹرز کو بھی مثبت پیغام دیا۔
یاد رہے کہ خرم منظور گزشتہ تین سال کے دوران پاکستان کی جانب سے دونوں اننگ میں نصف سنچری اسکور کرنے والے پہلے اوپنر بھی ہیں، اس سے قبل سابق کپتان اور اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں سزا بھگتنے والے سلمان بٹ نے 2010 میں لارڈز میں آسٹریلیا کے خلاف دونوں اننگ میں ففٹی اسکور کی تھی۔
اسی طرح راحت علی بھی پہلے ٹیسٹ میں متاثر نہ کر سکے لیکن دوسرے میچ کی دوسری اننگ پانچ وکٹیں لے کر انہوں نے روشن مستقبل کی نوید دی، اب یہ ٹیم مینجمنٹ اور بورڈ کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کے اندر چھپے ٹیلنٹ کا صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہوئے بڑی ٹیموں کے خلاف میچز کے لیے تیار کریں۔
اجمل آخر کب تک؟
باؤلنگ ہمیشہ سے ہی پاکستان کا سب سے اہم ہتھیار رہی ہے لیکن موجودہ سیریز میں ایک بار پھر سوائے سعید اجمل کے بقیہ تمام باؤلرز کی کارکردگی واجبی سی رہی، یہ بات درست ہے کہ ہم نے سیریز میں اپنے سب سے اہم فاسٹ باؤلر محمد عرفان کو آرام کا موقع فراہم کیا لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گرین شرٹس جنوبی افریقہ، ہندوستان یا انگلینڈ نہیں بلکہ زمبابوے کے مدمقابل تھے۔
بات کی جائے جنید خان کی تو ان کی پرفارمنس ایک بار پھر معیار سے کم تر رہی اوراس تناظر میں ان کی آئندہ سیریز میں شمولیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
ماضی کی طرح ایک بار پھر سعید اجمل سرفہرست باؤلر رہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک سعید اجمل اور عبدالرحمان پر بھروسہ کرتے رہیں گے۔
سعید نے گو کہ بہت زیادہ کرکٹ نہیں کھیلی لیکن اب وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ جہاں شایدہ وہ دو یا تین سال سے زائد ٹیم کی خدمت نہ کر سکیں اور عبدالرحمان کو بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔
اس سے اہم چیز یہ کہ رضا حسن جیسے نوجوان باصلاحیت گیند باز کی موجودگی میں عبدالرحمان کو اس دورے کے لیے ٹیم کا حصہ کیوں بنایا گیا، اگر نوجوان کھلاڑیوں کو ان ٹیموں کے خلاف نہیں تو پھر کب صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا جائے گا؟۔
وہی پرانا مسئلہ:
پاکستان کرکٹ کے آغاز سے اب تک سوائے چند مواقعوں کے بیٹنگ پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ رہی ہے اور ایسا ہی کچھ زمبابوے کے خلاف بھی ہوا، سب سے زیادہ پریشان کن بات مستقبل کے حکمت عملی کی عدم موجودگی، حفیظ کی ٹیسٹ الیون میں شمولیت اور اسد شفیق کی مسلسل ناکامی ہے۔
ٹیسٹ سیریز کے آغاز سے قبل حفیظ کی فٹنس پر شکوک و شبہات تھے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید وہ ٹیسٹ سیریز میں حصہ نہ لے سکیں لیکن اس کے برعکس وہ ناصرف ٹیم کا حصہ رہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دورہ جنوبی افریقہ سے شروع ہونے والے ناکامیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو بھی برقرار رکھا۔
اس دوران سب سے زیادہ اچھنبے کی بات آل راؤنڈر کی جانب سے دونوں میچز میں ایک بھی اوور نہ کرانا ہے حالانکہ اس بات پر تمام ماہرین کرکٹ متفق ہیں کہ اگر حفیظ ٹیسٹ میں اپنی باؤلنگ کی صلاحیتوں کو برائے کار نہیں لاتے تو ان کی ٹیم میں ہرگز جگہ نہیں بنتی جس کا واضح ثبوت گزشتہ دس اننگ میں ان کی پرفارمنس ہے جہاں وہ محض 102 رنز ہی بنا سکے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حفیظ کو ٹیسٹ کرکٹ میں بھی مصباح کا جانشین تصور کیا جا رہا تھا اور امید تھی کہ جب موجودہ کپتان ریٹائر ہوں گے تو حفیظ کپتان کی ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے مکمل تیار ہوں گے لیکن اوپنر کی موجودہ کارکردگی نے ان کی ٹیم میں شمولیت ہی مشکوک بنا دی ہے جس سے مستقبل قریب میں قیادت کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
اسی طرح اسد شفیق جیسے باصلاحیت بلے باز کی مسلسل ناکامی بھی لمحہ فکریہ ہے جس کے باعث ان کا مستقبل خطرات سے دوچار ہو گیا ہے اور ان کی دورہ جنوبی کے لیے ٹیم میں شمولیت کا امکان بھی کافی کم ہو گیا ہے۔
اسد کے بارے میں تمام ماہرین کرکٹ اس بات پر متفق ہیں کہ اسد موجودہ دور کے نوجوان باصلاحیت بلے بازوں میں تکنیکی طور پر کافی مضبوط ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہے کہ ایک ایسا کھلاڑی جس نے دنیائے کرکٹ میں قدم رکھنے ہی اپنی صلاحیتوں کو منوا لیا، اس کی کارکردگی یکدم خرابی کی جانب کیسے گامزن ہو گئی اور اس سلسلے میں ٹیم مینجمنٹ کیا کردار ادا کر رہی ہے۔
بیٹنگ میں بھی باؤلنگ کی طرح تجربہ کار کھلاڑی ہی کچھ کرتے دکھائی دیے اور یونس خان اور کپتان مصباح الحق کی پرفارمنس نسبتاً بہتر رہی لیکن آخر کب تک یہ دونوں بلے باز تن تنہا کارکردگی دکھاتے ہوئے دوسرے بیٹسمینوں کی ناکامی پر پردہ ڈالتے رہیں گے۔
دونوں ہی کھلاڑی خصوصاً مصباح عمر کے اس حصے میں قدم رکھ چکے ہیں جہاں وہ بمشکل دو سال ہی یہ ذمے داریاں اٹھا سکیں گے لیکن اس کے باوجود ایک کمزور ٹیم کے خلاف کسی نوجوان کو موقع نہ دینا اور مستقبل کے لیے ان کا متبادل تیار نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر سیریز سر پر کھڑی ہے لیکن ہم ابھی تک ایک متوازن کمبی نیشن تک تیار نہیں کر سکے اور اس دورے کو دیکھ کر خدشہ یہی ہے کہ شاید اس سیریز کا نتیجہ بھی جنوبی افریقہ میں کھیلی گئی سیریز سے مختلف نہ ہو۔
درحقیقت اگر قومی ٹیم کی حالیہ اور ماضی قریب کی کارکردگی کو دیکھا جائے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قومی کرکٹ روبہ زوال ہے اور اس سلسلے میں تمام متعلقہ حکام کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یقیناً وہ وقت دور نہیں کرکٹ کا حال ہاکی جیسا ہو اور قومی کھیل کی طرح کرکٹ میں بھی ہماری رینکنگ اس حد تک گر جائے کہ ہمیں ورلڈ کپ تک رسائی کولیفائنگ راؤنڈ کھیلنے اور پھر اس میں شکست کی خفت برداشت کرنی پڑے۔