دنیا

ٹرمپ روس کیساتھ یو کرین جنگ پر بات چیت کے خواہاں، پیوٹن کی پر اسرار خاموشی

روسی صدر جنگ سے تھکے ہوئے ملک یوکرین میں اپنے مقاصد کے حصول کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں، ٹرمپ فوری فیصلے کرتے، پیوٹن منظم مفکر ہیں، ماہرین

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس سے یوکرین کی جنگ پر بات کرنے کے خواہاں ہیں، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ صدر ولادیمیر پیوٹن بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں یا نہیں۔

عرب نیوز میں شائع رپورٹ کے مطابق صدر ولادیمیر پیوٹن کے یوکرین پر حملے کے تقریباً 3 سال بعد، ان کی فوجیں میدان جنگ میں مسلسل پیش رفت کر رہی ہیں، کیف کو اہلکاروں اور ہتھیاروں کی قلت کا سامنا ہے، اور نئے امریکی صدر جلد ہی یوکرین کی فوجی امداد کی بڑے پیمانے پر فراہمی کو روک سکتے ہیں۔

روسی اور مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیوٹن جنگ سے تھکے ہوئے ملک یوکرین میں اپنے مقاصد کے حصول کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں، اور مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے بہت کم حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، چاہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انہیں کتنی ہی دھمکیاں کیوں نہ دیں۔

امریکی اور ورسی صدور، دونوں ہی یوکرین کے بارے میں بات چیت کا اشارہ دے رہے ہیں، فون کے ذریعے یا ذاتی طورپر، چاپلوسی اور دھمکیوں کا استعمال کرتے ہوئے، ایسے اشارے ملے ہیں۔

پیوٹن نے کہا کہ ٹرمپ ’ہوشیار اور حقیقت پسند‘ تھے اور انہوں نے 2020 کے انتخابات جیتنے کے اپنے جھوٹے دعووں کو بھی مسترد کر دیا، ٹرمپ کا افتتاحی بیان پیوٹن کو ’ہوشیار‘ کہنا اور روس کو محصولات اور تیل کی قیمتوں میں کمی کی دھمکی دینا تھا، جسے کریملن نے مسترد کر دیا تھا۔

ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں میں جنگ ختم کر سکتے ہیں، جو بعد میں 6 ماہ تک جاری رہی، انہوں نے اشارہ دیا کہ امریکا کیف کی مدد کے بغیر یوکرین کے بارے میں روس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، ان کی انتظامیہ پہلے ہی بہت سنجیدہ بات چیت کر چکی ہے۔

امریکی صدر نے تجویز دی کہ وہ اور پیوٹن جلد ہی جنگ کے خاتمے کے لیے اہم اقدامات کر سکتے ہیں، جس میں روس کو روزانہ بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، جب کہ اس کی معیشت سخت مغربی پابندیوں، افراط زر اور مزدوروں کی شدید قلت کا سامنا کر رہی ہے۔

تاہم روس کی معیشت تباہ نہیں ہوئی ہے، چوں کہ پیوٹن نے سوویت دور کے بعد سے اختلاف رائے کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن شروع کیا ہے، لہٰذا انہیں جنگ کے خاتمے کے لیے کسی اندرونی دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مغرب میں کہیں سے یہ خیال آیا ہے کہ پیوٹن کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی معاہدے پر پہنچیں اور معاملات کو ختم کریں، نومبر میں پیوٹن کے ساتھ ایک فورم کی میزبانی کرنے والے اور ماسکو کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کی کونسل کے سربراہ فیوڈور لوکیانوف نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔

یوکرین کے بغیر یوکرین کے بارے میں بات چیت

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ پیوٹن ٹرمپ کے ساتھ براہ راست معاملات کرنا چاہتے ہیں، یہ بائیڈن انتظامیہ کے اس مؤقف کے منافی ہے، جس میں زیلنسکی کے اس مطالبے کی بازگشت سنائی دی تھی کہ یوکرین کے بغیر یوکرین کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔

زیلنسکی نے کہا کہ ہم کسی کو اپنے لیے کچھ فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، روس یوکرین کی آزادی کی تباہی چاہتا ہے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ اس طرح کے کسی بھی امن معاہدے سے چین، شمالی کوریا اور ایران میں آمرانہ رہنماؤں کو خطرناک اشارہ ملے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ پیوٹن کو توقع ہے کہ ٹرمپ یوکرین کے بارے میں یورپی عزم کو کمزور کریں گے، انہوں نے یورپ کے حوالے سے کہا کہ وہ جلد ہی اپنے آقا کے قدموں پر فرمانبرداری سے بیٹھیں گے اور اپنی دموں کو پیار سے چومیں گے، کیوں کہ امریکی صدر جلد ہی اپنے کردار اور استقامت کے ساتھ نظم و ضبط لے کر آئیں گے۔

ٹرمپ معاہدہ سازی کی اپنی صلاحیتوں پر فخر کرتے ہیں، لیکن پیوٹن یوکرین میں روس کی آبائی زمینوں کو آسانی سے نہیں چھوڑیں گے، یا مغرب کو سزا دینے اور کیف کو غیر جانبداری کی پالیسی پر مجبور کرکے اس کے اتحاد اور سلامتی کو کمزور کرنے کا موقع ضائع نہیں کریں گے۔

2016 سے 2019 تک امریکا میں برطانیہ کے سفیر سر کم ڈیروک نے کہا کہ ٹرمپ ایک امن ساز کی حیثیت سے وراثت چاہتے ہیں، لیکن تاریخ ان پر مہربانی نہیں کرے گی اگر وہ، وہ شخص ہیں جو یہ سب کچھ دیتے ہیں۔

نیٹو کی سابق ترجمان اوانا لنگسکو نے کہا کہ ماسکو کے حق میں ہونے والا معاہدہ ’امریکی کمزوری‘ کا پیغام دے گا۔

ہیلسنکی کی گونج

فن لینڈ کے سابق صدر سولی نینستو نے کہا کہ ٹرمپ اور پیوٹن کی آخری ملاقات 2018 میں ہیلسنکی میں ہوئی تھی، جب ان کے درمیان باہمی احترام قام تھا، انہوں نے کہا کہ لیکن وہ دونوں بہت زیادہ مماثلت نہیں رکھتے، پیوٹن ایک منظم مفکر ہیں، جب کہ ٹرمپ ایک کاروباری شخص کی طرح کام کرتے ہیں جو ’فوری‘ فیصلے کرتے ہیں۔

اس سے تصادم ہو سکتا ہے، کیوں کہ ٹرمپ جنگ کا فوری حل چاہتے ہیں، جب کہ پیوٹن ایک سست رفتار جنگ چاہتے ہیں، جو ان کی فوجی پوزیشن کو مضبوط کرے اور کیف اور مغرب دونوں کی سیاسی قوت ارادی کو کمزور کرے۔