دنیا

دبئی کے ریسٹورنٹس میں کھانا لندن، ٹوکیو، پیرس سے مہنگا کیوں ہے ؟

مزدوری کی لاگت، بڑھتے ہوئے کرائے، سپلائی چین کے اثرات اور بڑھتی ہوئی افراط کی وجہ سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ماہرین کا دبئی چیمبر میں پینل ڈسکشن میں اظہار خیال

ریسٹورنٹ کی صنعت کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ کھانے کی لاگت میں متعدد عوامل کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے، جن میں سپلائی چین میں خلل اور تجارتی کرایوں میں اضافہ شامل ہے۔

خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق دبئی چیمبر آفس میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) ریسٹورنٹ گروپ کی جانب سے منعقدہ فورم میں پینل ڈسکشن کے دوران تاشاس گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیفانو میہیلیسیانوس نے کہا کہ قیمتوں کا تعین اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دنیا سیاسی اور معاشی صورت حال دیکھتی ہے۔

گزشتہ چند سال میں تجارتی کرایوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ دنیا بھر میں جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے سامان کی قیمت، بالخصوص روس اور یو کرین کی جنگ کے بعد عالمی سطح پر بڑھ گئی ہے۔

دبئی کو برطانیہ میں قائم ہولیڈو نے 150 شہروں میں 98 ویں نمبر پر رکھا ہے، جس میں سستے کھانے کی قیمت تقریباً 10 یورو (38 درہم) اور اوسط کھانے کی قیمت تقریباً 62 یورو (197 درہم) ہے۔

ہولیڈو کی جانب سے کھانے کی قیمتوں کے حوالے سے دبئی کو پیرس، لندن، ہانگ کانگ، سنگاپور، ٹوکیو اور دیگر ممالک سے زیادہ مہنگا شہر قرار دیا گیا ہے۔

یہ تحقیق درآمدی بیئر، کیپوچینو (کافی)، الکوحل، روٹی اور پنیر کی قیمت کے تقابلی اخراجات پر مبنی ہے۔

کھانے کے زمرے میں، سستے ریستورانوں کا تجزیہ کیا گیا، یہ اوسط درجے کے کھانے کے لیے درمیانے درجے کے ریسٹورنٹ میں 2 افراد کے کھانے کی قیمت کی پیمائش کرتا ہے۔

ابوظہبی میں سستے کھانے کی قیمت 6.2 یورو (23.5 درہم) اور مڈ رینج کھانے کی قیمت 49.5 یورو (187 درہم) ہے، جو امارات کو عالمی سطح پر 75 ویں نمبر پر رکھتا ہے۔

میہالیسیانوس نے زور دے کر کہا کہ ریسٹورنٹس اور ایف اینڈ بی آؤٹ لیٹس غیر ضروری فائدہ نہیں اٹھا رہے۔

انہوں نے کہا کہ مسابقت برقرار رکھنے کے لیے فائدہ اٹھانے اور بہت کچھ کرنے کے معاملے میں ہم بہت کم کر رہے ہیں، آپ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کی قیمت میں کئی عوامل شامل ہوتے ہیں، جس میں مزدوری کی لاگت، بڑھتے ہوئے کرائے، سپلائی چین کے اثرات اور بڑھتی ہوئی افراط زر شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سامان کی قیمت بڑھ رہی ہے اور کرایہ بڑھ رہا ہے، زیادہ تر ریستوراں صارفین کا فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں اور طوفان سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بھارتی ریسٹورنٹس کی چین ’کھڈک‘ کے بانی نوید ناصر کا کہنا ہے کہ قیمتوں کے معاملے میں ریسٹورنٹس کو گاہکوں کے ساتھ دیانت دار اور شفاف ہونا چاہیے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ ریسٹورنٹس کو معیار اور خدمات پر سمجھوتہ کرکے قلیل مدتی فروغ مل سکتا ہے ، لیکن یہ کمپنی کے لیے طویل مدت میں ’موت‘ ہے۔

دبئی چیمبر میں بزنس ایڈوکیسی کی نائب صدر ماہا الگرگاوی نے کہا کہ ریسٹورنٹ کی صنعت مسلسل ترقی کر رہی ہے، اور اس میں اضافے کے لیے بہت سارے دلچسپ مواقع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم دبئی کو دنیا کے نقشے پر عالمی کھانے کے مقامات میں سے ایک کے طور پر پیش کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے فوڈ سروسز سیکٹر کی اس سال 23 ارب 20 کروڑ ڈالر سے تجاوز کرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، اور توقع ہے کہ 2030 تک یہ 52 ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گا، یہ اعداد و شمار ریسٹورنٹس کے شعبے میں متاثر کن ترقی کو ظاہر کرتے ہیں۔

گزشتہ سال 4 ہزار 50 سے زائد ریسٹورنٹس نے دبئی چیمبر کے ساتھ فعال ممبر کے طور پر اندراج کروایا، جن میں ایک ہزار سے زیادہ نئے ممبرز شامل تھے۔