دنیا

جنگ ختم ہونے کے بعد بھی افغانستان بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، اقوام متحدہ

ہم نے دنیا بھر میں 17 بحرانوں کی نشاندہی کی ہے جہاں ہماری مداخلت سب سے زیادہ فوری اور اہم ہے، اور افغانستان اس فہرست میں سب سے اوپر ہے، یو این ریلیف چیف

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، خواتین کے حقوق، نقل مکانی، غربت سمیت افغانستان کو متوازی بحرانوں کا سامنا ہے، جنگ ختم ہونے کے بعد بھی یہ ملک بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارےاے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ریلیف چیف ٹام فلیچر نے اے ایف پی سےبات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امدادی بجٹ میں ’ ظالمانہ ’ کٹوتیوں پر افسوس کا اظہار کیا۔

شمالی افغانستان کے صوبہ قندوز کے دورے کے دوران اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انسانی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے کہا، ’ ہم نے دنیا بھر میں 17 بحرانوں کی نشاندہی کی ہے جہاں ہماری مداخلت سب سے زیادہ فوری اور اہم ہے، اور افغانستان اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔’

تام فلیچر کا یہ دورہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر ملکی امداد میں کمی کرنے کے فیصلے کے بعد آیا ہے جس نے پوری دنیا میں صدمے کی لہر دوڑا دی ہے۔

واشنگٹن افغانستان کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ رہا ہے، جس نے 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے 3.71 ارب ڈالر کی انسانی اور ترقیاتی امداد فراہم کی ہے۔

ٹام فلیچر نے کہا کہ افغانستان ایک مختلف قسم کا چیلنج ہے، لیکن یہ بہرحال ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔اقوام متحدہ کے ریلیف چیف نے مزید کہا کہ ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال بحران در بحران کے سلسلے کو مزید بڑھا رہی ہے۔

طالبان حکام نے خواتین پر ایسی پابندیاں عائد کی ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے ’ صنفی امتیاز’ قرار دے کر مذمت کی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو پرائمری اسکول سے آگے تعلیم کے ساتھ ساتھ کام کے بہت سے شعبوں اور عوامی مقامات پر جانے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔

کابل اور طالبان کے گڑھ جنوبی قندھار میں اس ہفتے طالبان کے عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد، فلیچر نے خواتین کے حقوق پر’ ذہنیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے لیے بات چیت’ کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا، ’میرے لیے یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ لوگ بات چیت کرنے کے لیے تیار تھے اور انہوں نے خالصتاً دفاعی انداز میں بات نہیں کی۔‘

افغان خواتین، خاص طور پر انسانی امداد میں کٹوتیوں سے متاثر ہوئی ہیں، بالخصوص صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں، جو غیر ملکی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتا رہا ہے۔

یونیسیف کے مطابق، افغانستان میں زچگی کے دوران شرح اموات 620 فی 100000 پیدائشیں اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 55 فی 1000 پیدائشیں ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

ایک موبائل ہیلتھ سینٹر میں افغان خواتین سے ملاقات کے بعد ٹام فلیچر نے کہا، ’ میں ان تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ہوں جو امداد میں کٹوتیوں پر خوشی مناتے ہیں کہ وہ ایک ایسی عورت کے ساتھ بیٹھیں جس نے اپنا بچہ اس لیے کھو دیا کیونکہ اسے درد زہ میں تین گھنٹے سائیکل چلانی پڑی تاکہ وہ ضروری دیکھ بھال حاصل کر سکے۔’

جب 28 سالہ گھریلو خاتون امینہ بیمار ہوئیں تو وہ دیہی علاقے میں واقع مرکز تک پہنچنے کے لیے ڈیڑھ گھنٹہ پیدل چلیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’ یہاں کوئی کلینک نہیں ہے، کوئی ڈاکٹر نہیں آتے، قریب میں کچھ نہیں، اور ہمارے پاس بجلی بھی نہیں ہے۔’

مقامی غیر سرکاری تنظیم ’ جیک ’ اور اقوام متحدہ کے اداروں کے تعاون سے چلنے والی یہ چھوٹی سی سہولت دباؤ کا شکار ہے۔

اس این جی او کو پہلے ہی بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، اب امریکا کے مالی تعاون سے چلنے والے ان کلینکوں کے مریضوں کو بھی جگہ دینی پڑ رہی ہے جو بند ہو چکے ہیں، نیز ان افغانوں کو بھی جو اپریل کے اوائل سے پاکستان سے بے دخل کیے گئے ہیں۔

ٹام فلیچر نے کہا، ’ کٹوتیوں کا فوری طور پر اثر نظر نہیں آیا، لیکن اب ہم واقعی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کٹوتیاں کتنی ظالمانہ ہونے والی ہیں۔’