اداریہ: ’مزدور طبقہ بوجھ نہیں بلکہ اہم ملکی اثاثہ ہے‘
عالمی یومِ مزدور کے موقع پر پاکستان کو تجارتی یونینز کے حوالے سے اپنے بیانیے میں تبدیلی لانا ہوگی جبکہ مزدوروں کے حقوق بھی بحال کرنے چاہئیں۔
پاکستان کا مزدور طبقہ جو پہلے ہی کم اجرت، ملازمت میں عدم استحکام اور آزادانہ تنظیمیں بنانے کی آزادی نہ ہونے جیسے متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، انہیں اپنی آواز اٹھانے کے لیے زیادہ سیاسی ماحول فراہم نہیں کیا جارہا۔ یومیہ اجرت کے لیے کام کرنے والے مزدوروں کے لیے یکم مئی کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں۔
گزشتہ سال صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ورکرز کے حقوق میں بہتری اور ان کی بہبود کے حوالے سے وعدہ کیا لیکن افسوسناک طور پر جیسے جیسے مصائب میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، یہ وعدے بھی کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔
دنیا بھر میں کام کے اوقات 8 گھنٹے مختص ہیں لیکن پاکستان میں بہت سے مزدور 16 گھنٹوں تک کام کرتے ہیں جبکہ انہیں اضافی وقت کی اجرت بھی ادا نہیں کی جاتی۔ معاشی پسماندگی کا شکار ملک جہاں کمر توڑ مہنگائی اور بلز کے بھاری بوجھ کے درمیان تنخواؤں میں کٹوتی اور ملازمتوں سے برطرفی عام ہوتی جارہی ہے، لیبر یونینز کم سماجی اقتصادی پیداواری صلاحیت والے ذہنی اور جسمانی طور پر تھکے ہوئے ورکرز کی نمائندگی کرتی ہیں۔
اگرچہ وہ سابق صدر پرویز مشرف تھے جنہوں نے پاکستان میں لیبر یونینز کو کمزور کیا اور کام کے بہتر ماحول کے حصول کی ان کی جدوجہد کو محدود کیا لیکن آج کی منتخب حکومتیں بھی یہی روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ اکثر 1952ء کے پاکستان ایسینشئل سروس ایکٹ کو سرکاری اداروں جیسے پی آئی اے میں یونین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے جواز کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ نتیجتاً حکومت اور صنعتی پالیسیوں میں مزدوروں کو اثاثے کے طور پر نہیں بلکہ بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جب کم سے کم تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ویج بورڈز کی جانب سے اس سے متعلق نوٹی فکیشن کے اجرا میں کئی ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ اسی لاپرواہی کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو کم تنخواہیں ملتی ہیں۔ غیر رسمی معیشت کا حصہ مزدور جیسے گھریلو ملازمین اور غیر ہنر مند محنت کش طبقہ مکمل طور پر اپنے نجی آجروں پر تنخواہوں کے لیے انحصار کرتا ہے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیے جانے کا خطرہ ہے۔
ریاست کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اصلاحات کا آغاز کرے اور مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہوکر پالیسی سازی میں افرادی قوت کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر دیکھے۔ تسلی بخش تنخواہوں، کام کے لیے محفوظ ماحول، ورکرز اور ان کے زیرِ کفالت افراد کے لیے صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم میں مدد کے ذریعے مزدور کے وقار کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
موجودہ معاشی بحران ایک ایسے حساس ماحول کا مطالبہ کرتا ہے جہاں حکومت، شہری اور ورکرز تنظیموں کو ہم آہنگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔