ترک عسکریت پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کا مسلح جدوجہد ختم کرنے کا اعلان
ترکیہ کی عسکریت پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے ریاست کے خلاف 4 دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط اپنی مسلح جدوجہد ختم کرنے اور تنظیم کو تحلیل کرنے کا اعلان کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پرو کرد نیوز ایجنسی ’اے این ایف‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ کردستان ورکرز پارٹی نے ریاستی اداروں کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تنظیم کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا گیا ’پی کے کے کی 12ویں کانگریس نے گزشتہ ہفتے تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کرنے اور مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘۔
کردستان ورکرز پارٹی کی جانب سے تنظیم کو تحلیل کرنے کا اعلان 1999 سے استنبول کے قریب ایک جزیرے میں قید تنظیم کے بانی عبداللہ اوجلان کی اپیل کے بعد کیا گیا۔
عبداللہ اوجلان نے فروری میں اپنے جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے اور تنظیم ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔
انہوں نے ایک خط میں پی کے کے سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ باقاعدہ طور پر یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک کانگریس منعقد کرے۔
بعد ازاں، تنظیم کی قیادت نے طویل مشاورت کے بعد اوجلان کی اپیل قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کیا۔
ہفتے کے روز ایک تقریر میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اشارہ دیا تھا کہ تنظیم کے خاتمے سے متعلق خبر کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکیہ کی حکومت ’ملک کو دہشت گردی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے پرعزم ہے‘۔
دوسری جانب، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کردستان ورکرز پارٹی کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ترکی میں پائیدار امن اور دہشت گردی سے پاک مستقبل کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔
ایکس پر جاری بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا ’تاریخی اعلان ترک قیادت کے غیر متزلزل عزم کا عکاس ہے، جو مفاہمت، اتحاد اور استحکام کی جانب مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ترکی دہشت گردی کے تمام مظاہر اور اقسام کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
واضح رہے کہ 1984 سے مسلح بغاوت جاری رکھنے والی کردستان ورکرز پارٹی کو ترکیہ کے علاوہ امریکا اور یورپی یونین نے بھی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
تنظیم کا ابتدائی مقصد کردوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا قیام تھا، جو ترکی کی 8 کروڑ 50 لاکھ آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔
عبداللہ اوجلان کی گرفتاری کے بعد خونریزی کے خاتمے کے لیے مختلف کوششیں کی گئیں، تاہم اب تک اس تنازع میں 40 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔