نقطہ نظر

اداریہ: ’ہماری جیلیں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں‘

ملیر ڈسٹرکٹ جیل واقعے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کے بعد جیل کی سیکیورٹی اور انتظامات میں واضح تبدیلیاں لائی جانی چاہئیں۔

کراچی کی ملیر ڈسٹرکٹ جیل توڑنے کے حالیہ واقعے کے بعد سندھ سمیت ملک کے دیگر حصوں میں جیل خانہ جات کے حوالے سے سہولیات کا مکمل آڈٹ جاری ہے۔ پیر اور منگل کو محسوس ہونے والے زلزلے کے جھٹکوں کے بعد تقریباً 200 قیدی جیل سے فرار ہوئے۔

زلزلے کے معمولی جھٹکوں کے بعد قیدیوں کو جیل کے صحن میں جمع کیا گیا تھا اور یہی غلط اقدام ثابت ہوا جہاں سے قیدیوں نے جیل حکام کے اہلکاروں کو قابو میں کیا اور فرار ہوئے۔ خبررساں اداروں کے مطابق 2 ہزار قیدیوں کی نگرانی پر صرف 28 اہلکار تعینات تھے جبکہ جیل کے کیمرے خراب ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ تادمِ تحریر قیدیوں کی بڑی تعداد مفرور ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا، قیدیوں کا جیل توڑنے کا واقعہ ’مواصلات اور تیاری میں مکمل خرابی‘ کا نتیجہ ہے۔ حکومتِ سندھ نے کہا کہ مفرور قیدی ’معمولی جرائم‘ میں ملوث تھے۔ اگر ان قیدیوں میں سخت گیر عسکریت پسند یا گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد شامل ہوتے تو یہ عوامی تحفظ کے لیے خطرے کا باعث بنتا۔

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہماری جیلیں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ جیل کے عملے کو قدرتی آفات یا دیگر ہنگامی حالات میں قیدیوں کو بحفاظت باہر نکالنے کے لیے تربیت دی جانی چاہیے تھی، ساتھ ہی یہ یقینی بنانا چاہیے تھا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں رہیں۔ اس کے بجائے جو دیکھنے میں آیا، وہ گھبراہٹ اور الجھن تھی۔ یہ واقعہ ایک بار پھر ملک بھر کی جیلوں میں اصلاحات کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

بہت سے واقعات میں ہماری جیلیں اب بھی نوآبادیاتی فریم ورک کے تحت چلائی جارہی ہیں۔ قیدیوں کا ہجوم ایک ہی جیل میں قید ہوتا ہے جبکہ ان جیلوں میں زیرِ سماعت قیدیوں کے ساتھ ساتھ سزا یافتہ قیدی بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب جیلوں میں محفوظ طریقے سے رکھنے کی گنجائش سے کئی زیادہ قیدی ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں بدانتظامی اور افراتفری فطری نتائج ہیں۔

معمولی جرائم میں ملوث افراد کے لیے مقدمات کی سماعت کو تیز کرنے اور پروبیشن کے اختیارات کھلے رکھنے پر غور کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ناقص قانونی اور فوجداری نظام کے نتیجے میں جیلوں میں بھیڑ اور ناقص انتظامات ہوتے ہیں۔

جیل کی سیکیورٹی کو بھی سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ ملیر واقعے نے ثابت کیا کہ جیل کی حفاظت کے حوالے سے سنگین خدشات موجود ہیں۔ سندھ حکام کو یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ تمام مفرور قیدیوں کو جلد ہی بازیات کرلیا جائے۔ ماضی میں بنوں جیل ٹوٹنے کے واقعے نے بتایا تھا کہ جب ریاست دفاع میں غفلت برتتی ہے توپُرتشدد عناصر خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں جس کے خوفناک نتائج ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جیل خانہ جات کی اصلاحات کے لیے کوششوں کی قیادت کررہے ہیں۔ ان کوششوں میں قیدیوں کی بہبود اور بحالی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جیلوں کی حفاظت میں خرابیوں کو دور کرنے کے لیے تیار کردہ تمام تجاویز کا جائزہ لینا چاہیے۔ ان سفارشات کو حتمی شکل دینے کے بعد چیف جسٹس یقینی بنائیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان پر بلا تاخیر عمل درآمد کریں۔

ملیر جیل واقعے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کے بعد جیل کی سیکیورٹی اور انتظام میں واضح تبدیلیاں لائی جانی چاہئیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ