دنیا

بلاول کی قیادت میں وفد لندن پہنچ گیا، امریکا کے دورے میں ’اہداف‘ حاصل کرنے کا دعویٰ

پاکستانی وفد برطانیہ کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کریگا، بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں عالمی طاقتوں سے ’مداخلت‘ کی اپیل

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کا سفارتی وفد امریکا کا دورہ مکمل کرکے لندن پہنچ گیا، پاکستانی وفد کل برطانوی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرے گا، اہم برطانوی شخصیات اور تھنک ٹینکس سے ملاقاتیں کرکے بدھ کو برسلز روانہ ہوگا۔

وفد کے اراکین نے بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں عالمی طاقتوں سے ’مداخلت‘ کی اپیل کی ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان نے امریکا میں ایک وسیع سفارتی مہم کا آغاز کیا تھا، تاکہ بھارت کے ساتھ حالیہ تنازع پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا جا سکے، اور واشنگٹن میں نئی دہلی کی بڑھتی ہوئی لابنگ کا مؤثر جواب دیا جا سکے، اس عالمی سفارتی رابطہ مہم کے تحت یہ وفد لندن پہنچ چکا، اور بدھ کو برسلز روانہ ہوگا۔

وفد میں سابق وزرائے خارجہ بلاول بھٹو زرداری، حنا ربانی کھر اور خرم دستگیر، سینیٹرز شیری رحمٰن، مصدق ملک، فیصل سبزواری اور بشریٰ انجم بٹ، جب کہ سینئر سفارت کار جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں۔

خرم دستگیر نے ’جیو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، وہ یہ تھا کہ امریکیوں کا خیال ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر میں ثالثی کی، اس لیے مزید مداخلت کی ضرورت نہیں، یہی ہماری مہم تھی، انہیں یہ سمجھانا کہ مداخلت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’سفارتی وفد نے اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں۔

سابق رکن قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ ہمارے وزرا نے یہ مؤقف بھی پیش کیا کہ اگر بھارت دوبارہ مذاکرات کی میز پر نہیں آتا، تو پانی کے مسئلے اور بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویے (جیسے یہ کہنا کہ جنگ کے لیے ثبوت کی ضرورت نہیں) کی وجہ سے برصغیر میں جنگ یقینی ہے۔

فیصل سبزواری نے جیو نیوز کو بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی طاقتیں بھارت کو کہیں کہ دو ہمسایہ ایٹمی ممالک اس خطرناک ماحول میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یہ نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے امن کے لیے نقصان دہ ہے۔

شیری رحمٰن (جو امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر بھی رہ چکی ہیں) نے ان ملاقاتوں کو بہت مثبت قرار دیا، اور کہا کہ انہوں نے ہمارے نکات اور خطرات کو سمجھا، اور اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا انتہائی غلط ہے۔

انہوں نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کو ’غزہ کے بعد سب سے بڑی کھلی جیل‘ قرار دیا۔

پیپلز پارٹی کی رہنما نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’بھارت جو بھی کرے، اسے مبارک ہو، ان کے وفود کا مقصد صرف پاکستان کو بدنام کرنا ہے، جب کہ ہم امریکا بھارت کو بدنام کرنے نہیں، بلکہ پاکستان کی کہانی سنانے گئے تھے۔

سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے کہا کہ نیویارک اور واشنگٹن دونوں میں کشمیر اور سندھ طاس معاہدے پر پاکستان کے مؤقف کو شاندار پذیرائی ملی، انہوں نے زور دیا کہ اگر آج سندھ طاس معاہدے کو نظرانداز کیا گیا، تو پھر مستقبل میں کوئی بھی معاہدہ قابل اعتبار نہیں رہے گا۔

نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے وفد کے مؤقف کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ہمارا پیغام یہ تھا کہ بھارت نے جارحیت کی، جب کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔

انہوں نے پاکستان کی بھارت کے ساتھ دیرینہ تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کی خواہش کا اعادہ کیا، پاکستان بظاہر جنوبی ایشیا میں امریکہ کو ایک زیادہ فعال سفارتی کردار ادا کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔

اسی ہفتے وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کو ’امن کا علمبردار‘ قرار دیا، جب کہ بلاول نے کہا تھا کہ یہ توقع رکھنا مناسب ہے کہ امریکا کا کردار ایک جامع مذاکرات کے بندوبست میں ہمارے لیے فائدہ مند ہوگا۔