چین اور امریکا کے درمیان لندن میں تجارتی مذاکرات کے نئے مرحلے کا آغاز
چین اور امریکا کے درمیان لندن میں تجارتی مذاکرات کا نیا مرحلہ شروع ہوگیا، گذشتہ ماہ جنیوا میں دونوں حریف ممالک کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی نےچینی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کے حوالے سے بتایا ہے کہ دونوں فریق برطانیہ کے دفتر خارجہ کے زیر انتظام تاریخی لنکاسٹر ہاؤس میں ملاقات کر رہے ہیں، چینی نائب وزیر اعظم ہی لیفینگ لندن میں دوبارہ مذاکراتی ٹیم کی سربراہی کررہے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا تھا کہ وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ، وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک اور تجارتی نمائندے جیمیسن گریر امریکی مذاکراتی کی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنے ’ٹروتھ سوشل‘ پلیٹ فارم پر کہا کہ ملاقات بہت اچھی ہونی چاہیے۔’
ان کی پریس سیکرٹری، کیرولین لیوٹ نے اتوار کو ’فاکس نیوز‘ کو بتایا: ’ ہم چاہتے ہیں کہ چین اور امریکا اس معاہدے کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں جو جنیوا میں طے پایا تھا۔’
اگرچہ برطانیہ کی حکومت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ بات چیت میں شامل نہیں تھی، تاہم ایک ترجمان نے کہا کہ’ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو آزاد تجارت کی چیمپئن ہے، برطانوی حکام نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ تجارتی جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے، لہٰذا ہم ان مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ’
نایاب زمینی دھاتوں پر بات چیت
لندن میں یہ مذاکرات ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان پہلی عوامی طور پر اعلان کردہ ٹیلی فون پر بات چیت کے چند دن بعد ہو رہے ہیں۔
ٹرمپ نے جمعرات کو ہونے والی کال کو ’ ایک بہت ہی مثبت نتیجہ’ قرار دیا تھا۔
خبر رساں ادارے شنہوا نے چینی صدر کے حوالے سے کہا ہے کہ ’ چین-امریکا تعلقات کا رخ درست کرنے کے لیے ہمیں اچھی طرح سے رہنمائی کرنی ہوگی اور سمت متعین کرنی ہوگی۔’
واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی شدید ہوچکی ہے، اور ٹرمپ نے بیجنگ پر الزام لگایا ہے کہ اس نے مئی کے وسط میں جنیوا میں طے پانے والے ٹیرف میں کمی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
کیرون لیوٹ نے اتوار کو کہا،’ ہم چاہتے ہیں کہ چین معاہدے کے اپنے حصے کی تعمیل کرے اور اسی پر تجارتی ٹیم کل بات کرے گی۔’
ایک اہم مسئلہ بیجنگ کی نایاب زمینی دھاتوں کی ترسیل ہوگی — جو الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں سمیت متعدد اشیاء کے لیے اہم ہیں اور جو کافی عرصے سے تنازعہ کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
تجارتی گروپ ایکس ٹی بی کے ریسرچ ڈائریکٹر کیتھلین بروکس کا کہنا تھا کہ چین سے امریکا کو نایاب زمینی دھاتوں کی ترسیل اپریل میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف کے اعلان کے بعد سے سست ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ امریکا چاہتا ہے کہ یہ ترسیل بحال کی جائیں، جبکہ چین چاہتا ہے کہ امریکہ طلبا پر امیگریشن کی پابندیوں، مائیکرو چپس سمیت جدید ٹیکنالوجی تک رسائی پر پابندیوں پر دوبارہ غور کرے اور چینی ٹیک فراہم کرنے والوں کے لیے امریکی صارفین تک رسائی کو آسان بنائے۔’
’گرین چینل‘ اور دیگر سفارتی اقدامات
واشنگٹن کے ساتھ اپنی بات چیت کے دوران، چین نے ٹرمپ کے ٹیرف کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانے کی کوشش میں دیگر تجارتی شراکت داروں، بشمول جاپان اور جنوبی کوریا، کے ساتھ بھی بات چیت شروع کی ہے۔
جمعرات کو، بیجنگ اور کینیڈا نے تعلقات میں کشیدگی کے بعد اپنے مواصلاتی چینلز کو باقاعدہ بنانے پر اتفاق کیا، اوٹاوا نے کہا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی اور چینی وزیر اعظم لی کیانگ نے تجارت اور فینٹینائل بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
بیجنگ نے یورپی یونین کو نایاب زمینی دھاتوں کی برآمدات کو آسان بنانے کے لیے ایک ’ گرین چینل’ قائم کرنے اور کچھ برآمدی لائسنسوں کی فوری منظوری کی بھی تجویز پیش کی ہے۔
بیجنگ اور برسلز کے سفارتی تعلقات کے 50 سال مکمل ہونے پر چین جولائی میں یورپی یونین کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی بھی کرے گا۔