نقطہ نظر

نریندر مودی ہوں یا عمران خان، ’غلط معلومات لیڈر کو خدا بنا دیتی ہیں‘

ایسا لگتا ہے کہ گویا عمران خان خوفزدہ ہیں کہ اپنے مخالفین کے ساتھ معاہدہ کرنے سے وہ اپنے حامیوں کو ناراض کردیں گے۔

یہاں اس تحریر میں ان لوگوں کے لیے بری خبر ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ معلومات کا زیادہ محتاط اور ذمہ دارانہ اشتراک، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جھوٹ پر یقین کرنے سے روک سکتا ہے۔

ماہرِ بشریات مارسیل ڈینیسی کے مطابق، ایک بار جب لوگ جھوٹ پر یقین کرنا شروع کردیتے ہیں تو اپنے عقائد سے متصادم شواہد سامنے آنے کے باوجود ان کے ذہن تبدیل ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ مارسیل ڈینیسی نے لکھا، ’وہ متضاد معلومات کو توڑ مروڑ دیتے ہیں تاکہ اسے اپنے عقائد کے مطابق بنا سکیں‘۔

اس حوالے سے تحقیق بتاتی ہے کہ ایک بار جب جھوٹ کو تسلیم کرلیا جائے تو مستقبل میں دماغ مزید جھوٹ قبول کرنے کا عادی بن جاتا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں صرف یہ قبول کرنا ہوگا کہ بہت سے لوگ صرف وہی مانیں گے جس پر وہ یقین کرنا چاہتے ہیں، چاہے حقیقت کچھ بھی ہو؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ہاں ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی ان کی رہائی کے حوالے سے ’معلومات‘ کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ گزشتہ دو سال سے یہی کررہے ہیں۔ وہ ان کی فاتحانہ رہائی کی مسلسل تاریخیں بتاتے رہتے ہیں لیکن ان کی معلومات کبھی بھی درست ثابت نہیں ہوتیں۔ اس کے باوجود ان کے حامی نئی ’معلومات‘ پر یقین کرتے رہتے ہیں اور نئی تاریخوں کے اشتراک کا سلسلہ جاری رکھنے اور پھر رہائی کا انتظار کرنے سے باز نہیں آتے۔

اور جب وہ تاریخ بھی کسی پیش رفت کے بغیر گزر جاتی ہے تو اس غلط معلومات کے بعد ایک نئی معلومات سامنے آتی ہے کہ جس میں قیاس کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت عمران خان کو رہا کرنے کے لیے بے چین ہیں لیکن وہ خود سامنے آنے سے انکاری ہیں کیونکہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ کوئی گھٹیا ’ڈیل‘ نہیں کرنا چاہتے۔

چلیے ایک اور مثال لے لیتے ہیں۔ 9 مئی کی شام کو کروڑوں بھارتی شہری اپنی ٹی وی اسکرینز کے سامنے بیٹھ کر اور سوشل میڈیا پر پُرجوش انداز میں اپنے ٹی وی اینکرز کے لیے تالیاں بجاتے رہے جو انہیں بتا رہے تھے کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ بہ ظاہر پاکستان میں ایک شہر کے بعد ایک شہر پر بھارتی مسلح افواج قبضہ کررہی تھیں اور ایک پورا صوبہ اپنی آزادی کا اعلان کرکے پاکستان سے الگ ہوچکا تھا۔ حکومت گر چکی تھی اور فوجی سربراہ کو برطرف کر دیا گیا تھا۔

یقیناً یہ سب ایک دھوکا تھا۔ کیا کوئی ایک بھی بھارتی شہری تھا جس نے دیگر خبررساں ذرائع کو دیکھنے کی زحمت کی ہو؟ ایک ایٹمی ملک کے میڈیا آؤٹ لیٹس میں ’خبروں‘ کا طوفان برپا تھا جس میں باآسانی دوسرے ایٹمی ملک کو شکست دی جارہی تھی۔ تو کیا بھارت میں اس حوالے سے پُرجوش کسی بھی شخص نے بی بی سی، سی این این، رائٹرز یا الجزیرہ کو چیک کرنے کا نہیں سوچا جن میں سے تمام کے پاکستان میں رپورٹرز موجود ہیں؟

یہاں تک کہ جب یہ شواہد سامنے آنے لگے کہ پاک فضائیہ نے کم از کم 5 بھارتی طیارے مار گرائے ہیں اور بھارت کو کروڑوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے تو بھارتی میڈیا نے اسے ’بھاری‘ کے بجائے ’معمولی نقصان‘ کے طور پر بیان کیا۔

ان لوگوں میں سے کسی نے بھی معافی نہیں مانگی جو ساری رات ٹی وی پر چیختے رہے اور دلیرانہ انداز میں جھوٹی ’خبریں‘ بتاتے رہے جو ان کے نام نہاد رپورٹرز نے شیئر کیں۔

مذکورہ بالا دو مثالوں میں کافی مماثل عوامل موجود ہیں۔

(الف) تصدیق سے تعصب: لوگوں کا اس معلومات پر یقین کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے جو ان کی سوچ کی تائید کرتی ہوں کیونکہ ان کے خیالات کے مطابق بنائی گئیں غلط معلومات پر سوال کرنے یا اسے مسترد کرنے کا امکان کم ہوتا ہے۔

(ب) محرک استدلال: واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون میں، صحافی رچرڈ سیما نے لکھا کہ لوگوں کے عقائد اور خواہشات اس بات پر اثرانداز ہوسکتے ہیں کہ وہ معلومات کو کس انداز میں لیتے ہیں جس سے وہ جھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں جو ان کے مقاصد یا جذبات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

اگر عمران خان کی رہائی اس تاریخ کو نہیں ہوتی جس تاریخ کا ان کے حامیوں نے ’اطلاع‘ دی تھی تو حقیقت یہی ہے کہ ان کی رہائی کا سرے سے کوئی منصوبہ تھا ہی نہیں۔ ان کے حامیوں کو بتایا جاتا ہے کہ عمران خان خود ہی رہائی نہیں چاہتے کیونکہ وہ ’اصول پسند‘ شخص ہیں جو ’کرپٹ‘ اور ’ظالم‘ مخالفین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں چاہتے۔

(ج) خیالی سچائی کا اثر: جب کسی چیز کو بار بار دہرایا جاتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو تو لوگ اس پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں یہ مانوس لگتا ہے۔ یہ حربہ جرمنی میں نازی حکومت کی وجہ سے مشہور تھا۔ ابھی حال ہی میں کچھ بھارتی نیوز اینکرز نے اعتراف کیا کہ انہوں نے یہ چال اس وقت استعمال کی جب وہ پاکستان کے تباہ ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلاتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جھوٹ کو صرف چند گھنٹوں کے دورانیے میں ہی کئی بار دہرایا جبکہ ایسی چال کو کامیاب ہونے کے لیے مہینوں یا سالوں سے زیادہ عام طور پر لگ جاتے ہیں۔ تاہم اگر مقصد ایک شام کے لیے ٹی وی ناظرین کی توجہ کا حصول تھا تو یہ حربہ کامیاب ہوگیا۔

غلط معلومات جب سوشل میڈیا پر پھیلتی ہیں تو یہ ایکو چیمبرز بناتی ہیں جہاں لوگوں کے سامنے صرف وہی معلومات آتی ہیں جو ان کے تعصب کی تصدیق کرتی ہیں۔ ان چیمبرز میں لوگ اکثر ایسی معلومات پر یقین رکھتے ہیں جو ان کے ’سماجی/سیاسی قبیلے‘ کے عقائد کے مطابق ہوتی ہیں۔ اسے بھارتی سوشل میڈیا پر اس وقت دیکھا گیا جب 9 مئی کو لاکھوں بھارتیوں کو ایک دیوہیکل ایکو چیمبر نے جھنجھوڑ ڈالا اور ان کا حقائق کی دنیا سے رابطہ منقطع ہوگیا۔

اکثر ایک لاجواب جھوٹ کے سامنے سچائی حقیر لگتی ہے۔ مضبوط جھوٹ جذبات کو متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یعنی جھوٹ سچائی کے مقابلے میں زیادہ پُرکشش ہوتا ہے جو لوگوں کو باآسانی قائل کرسکتا ہے۔ بھارتی شہریوں سے من گھڑت جھوٹ بولے گئے اور انہیں کسی بلاک بسٹر فلم کی طرح چلایا گیا۔ جھوٹ نے جذبات کو بڑھاوا دیا جس نے زیادہ تر بھارتی شہریوں میں رہ جانے والی تنقیدی سوچ کی کسی بھی صلاحیت کو مکمل طور پر مغلوب کردیا۔ یہ امر اس وقت اور بھی مضبوط ہوتا ہے جب جھوٹ میں ایک مقبول لیڈر شامل ہوتا ہے جسے نجات دہندہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

بھارت کے معاملے میں یہ وزیر اعظم نریندر مودی ہیں جبکہ پاکستان کے معاملے میں یہ عمران خان ہیں۔ امریکی سیاسی تاریخ دان روتھ بین گھاٹ کے مطابق، ایک بار جب لوگ ایک پاپولسٹ لیڈر کے ساتھ بندھ جاتے ہیں تو وہ کسی ایسے ثبوت کو مسترد کرنے پر مائل ہوسکتے ہیں جو اس کے دعووں سے متصادم ہو یا وہ لیڈر کے پیغامات میں تضادات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ وہ جان سکتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے لیکن وہ پروا نہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔

عمران خان اپنی پارٹی کے ایکس اکاؤنٹ سے اکثر ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے اپنے بیانات کے متصادم ہوتی ہیں۔ دلچسپ انداز میں ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ خوفزدہ ہیں کہ اپنے مخالفین کے ساتھ معاہدہ کرنے سے وہ اپنے حامیوں کو ناراض کردیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے حامی شاید اس ڈیل کو بھی بہادر اور عزت دار چیز میں بدل دیں گے۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا مودی کے انتہائی کٹر پرستاروں نے بھی کیا جب انہیں شواہد کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے پاکستان کے خلاف مودی کی چال ناکام ہونے کو ثابت کیا۔ اس پر یقین کرنے کے بجائے وہ اسے ’دہشت گردی کے خلاف فتح‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

روتھ بین گھاٹ کی نظر میں میڈیا کی خواندگی میں سرمایہ کاری انتہائی ضروری ہے لیکن طاقت کے مقبول ماڈلز کے نقصانات کے حوالے سے تعلیم بھی ضروری ہے جو جھوٹ اور غلط معلومات کے نیٹ ورک کی موجودگی میں لیڈرز کو خدا جیسی بے مثل ہستی میں بدل دیتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔