امریکا نے اسرائیل کو ’موت کا فرقہ‘ قرار دینے والے اعلیٰ افسر کو حساس مشاورتی عہدے سے ہٹا دیا
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کرنل ناتھن میک کارمیک کی جانب سے اسرائیل کو ’موت کا فرقہ‘ قرار دینے کے بعد انہیں حساس مشاورتی عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
تہران ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کرنل ناتھن میک کارمیک نے اسرائیلی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ’موت کا فرقہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا خود اسرائیل کا پراکسی بن چکا ہے۔
کرنل ناتھن میک کارمیک جون 2024 سے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے جے5 پلاننگ ڈائریکٹوریٹ میں لیونٹ اور مصر کے شعبے کے سربراہ کے طور پر تعینات تھے، ان کا کام امریکی اعلیٰ فوجی قیادت کو شراکت دار ممالک کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے تیار کرنا تھا، جن میں اسرائیل بھی شامل ہے۔
کرنل میک کارمیک ایک نیم گم نام سوشل میڈیا اکاؤنٹ ’نیٹ‘ کے نام سے چلا رہے تھے جہاں وہ خاص طور پر 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔
محکمہ دفاع کے ایک اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ کرنل میک کارمیک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، اور کہا کہ ان کی آرا ’جوائنٹ اسٹاف یا محکمہ دفاع کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتیں‘ معاملہ اب امریکی فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے اور میک کارمیک کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ حذف کر دیا گیا ہے۔
حذف کیے جانے سے پہلے ان کے بیانات میں اسرائیلی پالیسی اور امریکا کی حمایت پر سخت تنقید کی گئی تھی۔
اپریل 2024 میں انہوں نے پوسٹ کیا تھا کہ ’میں نے حال ہی میں یہ سوچنا شروع کیا ہے کہ کہیں ہم خود اسرائیل کے پراکسی تو نہیں بن چکے اور ہمیں اس کا علم ہی نہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ اسرائیل ہمارا ’بدترین اتحادی‘ ہے، ہمیں اس شراکت داری سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے کروڑوں لوگوں کی دشمنی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
مئی میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’نیتن یاہو اور ان کے یہودی بالادستی پر یقین رکھنے والے ساتھیوں‘ نے سیاسی یا علاقائی مقاصد کے لیے اس تنازع کو طول دیا ہے۔
انہوں نے اسرائیلی فوجی کارروائیوں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل کا ردعمل ہمیشہ (یہ مبالغہ نہیں) فلسطینی شہریوں کو غیر متناسب طور پر نشانہ بناتا ہے، انہوں نے مزید دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل کا مقصد ’ارض اسرائیل‘ کو نسلی طور پر فلسطینیوں سے پاک کرنا ہے۔
مزید برآں، میک کارمیک نے کچھ عملی معلومات بھی افشا کی تھیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو لبنان پر حملے کے خطرات سے خبردار کیا تھا، لیکن اسرائیل نے ان خبرداروں کو نظر انداز کیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی محکمہ دفاع اور دیگر ادارے غزہ کی وزارت صحت کے ہلاکتوں کے اعداد و شمار کو عمومی طور پر قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔
کرنل میک کارمیک کی برطرفی واحد واقعہ نہیں، بلکہ یہ امریکی معاشرے اور سیاست میں گہرے ہوتے اختلافات کی علامت ہے۔
ایک بڑھتی ہوئی تعداد میں امریکی عوام، جو اسرائیل کی حمایت میں بڑے پیمانے پر مالی و فوجی وسائل خرچ کیے جانے سے بیزار ہیں، ایسی پالیسیوں کی مخالفت کر رہے ہیں جنہیں وہ امریکی مفادات اور جانوں کی قربانی سمجھتے ہیں، وہ بھی ایک دوسرے ملک کے ایجنڈے کے لیے۔
یہ جذبات رائے عامہ کے سروے میں بھی جھلکتے ہیں۔
ایک حالیہ ’YouGov‘ سروے کے مطابق صرف 16 فیصد امریکی ایران کے ساتھ جنگ میں امریکی فوجی مداخلت کی حمایت کرتے ہیں، جو انتہائی کم حمایت کا مظہر ہے۔
معروف میڈیا شخصیات اس اختلاف کو مزید اجاگر کر رہی ہیں، بااثر مبصر ٹکر کارلسن نے بارہا امریکی پالیسی پر تنقید کی اور اسرائیل کی جارحیت میں امریکا کو شریکِ جرم قرار دیا ہے۔
کارلسن نے حال ہی میں ایک موقع پر ریپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز کی لاعلمی کو بے نقاب کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ ’آپ ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ وہاں کتنے لوگ رہتے ہیں؟
اس کے جواب میں کروز نے اعتراف کیا کہ ’مجھے نہیں معلوم‘۔
کارلسن نے جواب دیا کہ آپ اُس ملک کی آبادی نہیں جانتے جسے آپ گرانا چاہتے ہیں؟ پھر انہوں نے بتایا کہ ایران کی آبادی 9 کروڑ 20 لاکھ ہے۔
یہ تنقیدی نقطہ نظر کانگریس میں بھی سننے کو مل رہا ہے۔
ریپبلکنز تھامس میسی اور رینڈ پال، اور ڈیموکریٹس الیگزینڈریا اوکاسیو-کورٹیز اور رو کھنہ جیسے ارکان، اسرائیل کی غیر مشروط فوجی حمایت اور ایران کے خلاف ممکنہ تنازع کے خطرات کے سخت مخالف ہیں۔
عوامی رائے کو ظاہر کرنے والے مبصرین جیسے نک فیوئنٹس بھی امریکی مفادات کو مقدم رکھنے کی بات کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی حمایت ’امریکا فرسٹ‘ کے اس وعدے کے بر خلاف ہے، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم نے کیا تھا۔