دنیا

طالبان نے اسکولوں اور مدارس میں اسمارٹ فونز پر مکمل پابندی عائد کردی

افغانستان میں پہلے ہی لڑکیوں کی ثانوی و اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد ہے اور اب تعلیمی اداروں میں اسمارٹ فونز پر مکمل پابندی نے طلبہ و طالبات کی تعلیمی سرگرمیوں کو مزید محدود کر دیا ہے۔

افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں طالبان حکام نے تعلیمی نظم و ضبط اور اسلامی اصولوں کے پیش نظر اسکولوں اور مدارس میں طلبہ، اساتذہ اور عملے پر اسمارٹ فونز کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، جس کا اطلاق فوری طور پر کر دیا گیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے جنوبی علاقے میں طالبان حکام کی جانب سے اسکولوں میں اسمارٹ فونز پر پابندی نافذ کردی گئی ہے، جس کی تصدیق طلبہ اور اساتذہ نے بھی کی ہے، یہ اقدام ’توجہ‘ اور ’اسلامی قانون‘ کے خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

قندھار میں صوبائی محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کردہ ہدایت نامہ طلبہ، اساتذہ اور اسکول و دینی مدارس کے انتظامی عملے پر لاگو ہوتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ تعلیمی نظم و ضبط اور توجہ کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا، جو کہ شرعی نقطہ نظر سے بھی درست قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اسمارٹ فونز آئندہ نسل کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

یہ پالیسی پہلے ہی صوبے بھر کے اسکولوں میں نافذ کی جاچکی ہے، تاہم اساتذہ اور طلبہ کے درمیان اس پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔

22 سالہ استاد سعید احمد نے بتایا کہ آج ہم اسکول میں اسمارٹ فونز نہیں لائے، مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جس سے پڑھائی پر زیادہ توجہ دی جاسکے گی۔

گیارہویں جماعت کے طالب علم محمد انور کے مطابق اساتذہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی فون لاتا ہوا نظر آیا تو وہ طلبہ کی تلاشی لینا شروع کر دیں گے۔

بارہویں جماعت کے ایک اور طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ پابندی تعلیم میں رکاوٹ بنے گی، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں لڑکیوں پر پہلے ہی سیکنڈری اسکول اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے، جسے اقوام متحدہ نے صنفی امتیاز قرار دیا ہے۔

اس طالب علم نے مزید کہا کہ جب استاد بورڈ پر اسباق لکھتے ہیں تو میں اکثر اس کی تصویر لے لیتا ہوں تاکہ بعد میں نوٹ تیار کر سکوں، لیکن اب میں یہ نہیں کر سکوں گا، اس فیصلے سے ہماری تعلیم پر منفی اثر پڑے گا۔

مکمل پابندی

19 سالہ مدرسہ طالب علم محمد نے کہا کہ یہ پابندی دینی مدارس پر بھی لاگو ہو چکی ہے اور اب یہاں کوئی بھی اسمارٹ فون نہیں لاتا۔

حالیہ برسوں میں فرانس، ڈنمارک اور برازیل سمیت کئی ممالک نے بھی کلاس رومز میں موبائل فونز پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

طالبان حکام پہلے ہی میڈیا میں جانداروں کی تصاویر پر پابندی عائد کر چکے ہیں، کئی صوبوں نے اس حوالے سے اقدامات کیے ہیں اور بعض طالبان اہلکاروں نے اپنی تصاویر یا ویڈیوز بنوانے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے گزشتہ ہفتے حکام اور علمائے کرام سے اسمارٹ فونز کے استعمال میں کمی کی اپیل کی۔

ایک 28 سالہ سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ قائدین کا حکم ہے اور ہمیں اس پر عمل کرنا ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے اب ایک سادہ فون لے لیا ہے، پہلے کبھی کبھار اسمارٹ فون پر واٹس ایپ استعمال کر لیتا تھا، لیکن اب نہیں کرتا۔

بعدازاں قندھار میں بعض طالبان اہلکاروں نے اب اپنے سادہ فونز کے نمبر شیئر کرنا شروع کر دیے ہیں اور آن لائن میسجنگ ایپس بند کر دی ہیں۔