کشمیر دنیا کے خطرناک ترین کشیدگی کے مقامات میں سرفہرست
گلوبل پیس انڈیکس 2025 کی رپورٹ میں کشمیر کو اُن عالمی خطوں میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے، جہاں بھارت اور پاکستان کے درمیان شدید کشیدگی کسی بھی وقت سنگین تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گلوبل پیس انڈیکس 2025 نے متنازع خطہ کشمیر کو دنیا کے سب سے خطرناک کشیدگی کے مقامات میں سرفہرست قرار دیا ہے، جہاں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ’خطرناک حد تک بلند‘ ہے۔
یہ انڈیکس انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس (آئی ای پی) کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، جس کا صدر دفتر سڈنی میں واقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق کشمیر کی صورتحال اُن علاقوں میں جنگ بندی معاہدوں کی نازک حیثیت کو ظاہر کرتی ہے جہاں جغرافیائی حالات پہلے ہی غیر مستحکم ہیں، جب کہ یہ ان خطرات کی بھی نشاندہی کرتی ہے جو غیر ریاستی عناصر کے ذریعے بین الاقوامی بحران کو مزید سنگین بنا سکتے ہیں۔
یہ انڈیکس دنیا میں امن کی مجموعی صورتحال کا جائزہ پیش کرتا ہے، جس میں پاکستان کو 144ویں نمبر پر ’کم امن‘ اور بھارت کو 115ویں نمبر پر ’درمیانے درجے کے امن‘ کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔
یوکرین اور روس کو 163 ممالک کی فہرست میں سب سے نچلے درجوں پر رکھا گیا ہے۔
بھارت میں تنازعات کی تاریخ اور ممکنہ کشیدگی کے مقامات سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ سال کے دوران کشمیر میں تنازع ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
انڈیکس میں کشیدگی کے خطرے کے اشارے لاگو کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کا تنازع تیزی سے بگڑ سکتا ہے، 7 سے 10 مئی 2025 کے درمیان چار روزہ جھڑپ ہوئی، جو حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان سب سے مہلک تصادم تھا۔
کشمیر پر دوبارہ تصادم کی صورت میں دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان براہِ راست ٹکراؤ کا خدشہ موجود ہے۔
اگرچہ دانستہ ایٹمی حملے کا امکان انتہائی کم ہے، تاہم روایتی فوجی کارروائی بھی بھاری جانی و مالی نقصان کا سبب بن سکتی ہے اور یہ کشیدگی باآسانی کشمیر کی سرحدوں سے باہر بھی پھیل سکتی ہے۔
کشمیر پر جاری تنازع میں بڑے پیمانے پر شدت آنے یا مکمل جنگ کی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ماضی میں دہشت گرد حملوں اور اس کے جواب میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر کارروائیاں ایسے تنازعات کا باعث بنی ہیں، جنہیں بعد ازاں قابو میں لایا گیا اور بین الاقوامی قوتوں نے کشیدگی کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے اندر بھی بڑے پیمانے پر تشدد یا عدم استحکام کے امکانات موجود ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ممکنہ پرتشدد کارروائیوں یا پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان جیسے گروہوں کی جانب سے کسی بھی ممکنہ تنازع سے فائدہ اٹھانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
گلوبل پیس انڈیکس 2025 نے ایسے کئی اہم خطوں کی نشاندہی کی ہے، جہاں کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ باآسانی بڑے پیمانے پر جنگوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
انڈیکس کے مطابق جنوبی ایشیا دنیا کا دوسرا کم ترین پرامن خطہ ہے، جہاں امن و امان کی صورتحال میں سب سے زیادہ بگاڑ ریکارڈ کیا گیا۔
اس خرابی کی بڑی وجوہات میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت کے جابرانہ اقدامات اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی، داخلی و سرحدی کشیدگی شامل ہیں۔
رواں سال کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر امن کی اوسط حالت میں 0.36 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
گزشتہ 17 برسوں میں یہ 13ویں مرتبہ ہے کہ دنیا میں امن کی صورتحال مزید بگڑی ہے، اس بار 74 ممالک میں بہتری آئی، جب کہ 87 ممالک میں امن کی صورتحال مزید خراب ہوئی۔
آئس لینڈ ایک بار پھر دنیا کا سب سے پرامن ملک قرار پایا ہے، جو 2008 سے اس مقام پر برقرار ہے۔