اسرائیلی حملے کے بعد ایران اور امریکا کا متعدد بار براہ راست رابطہ ہوا، سفارتکاروں کا انکشاف
3 سفارتکاروں نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حملے کے بعد سے ایران اور امریکا کے درمیان کئی بار رابطہ ہوا اور براہ راست مذاکرات ہوئے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق 3 سفارت کاروں نے ایجنسی کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے شروع ہونے کے بعد، امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان متعدد بار فون پر بات چیت ہوئی ہے تاکہ اس بحران کا سفارتی حل تلاش کیا جا سکے۔
ان سفارت کاروں نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واضح کیا کہ جب تک اسرائیل حملے نہیں روکتا، تہران مذاکرات کی میز پر واپس نہیں آئے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بات چیت میں امریکا کی طرف سے مئی کے آخر میں دی گئی ایک تجویز پر مختصر بات چیت بھی کی گئی، جس کے تحت یورینیم ایران سے باہر افزودہ کرنے کے لیے علاقائی کنسورشیم قائم کیا جائے، تاہم ایران نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔
امریکی اور ایرانی حکام نے رائٹرز کی اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
خیال رہے کہ یہ فون کالز اپریل سے جاری بالواسطہ مذاکرات کے بعد دونوں فریقین کے درمیان سب سے بامعنی براہ راست رابطہ تھیں، اپریل میں عمان اور اٹلی میں عباس عراقچی اور اسٹیو وٹکوف کی مختصر غیر رسمی ملاقاتیں ہوئیں مگر کوئی براہ راست بات چیت نہیں ہوئی تھی۔
تہران سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک علاقائی سفارت کار نے بتایاکہ ایرانی وزیر خارجہ نے اسٹیو وٹکوف سے واضح طور پر کہا کہ ’اگر واشنگٹن، اسرائیل پر دباؤ ڈالے کہ وہ جنگ بند کرے تو تہران جوہری معاملے میں لچک دکھا سکتا ہے‘۔
ایک یورپی سفارت کار نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ’عباس عراقچی نے امریکا کے خصوصی ایلچی کو بتایا کہ ایران جوہری مذاکرات میں واپسی کے لیے تیار ہے، مگر جب تک اسرائیل بمباری جاری رکھتا ہے، ایسا ممکن نہیں‘۔
رائٹرز سے بات کرنے والے ایک اور علاقائی سفارت کار کے مطابق پہلی فون کال امریکا کی جانب سے کی گئی تھی، جس میں تعطل ختم کرنے کے لیے ایک نئی پیشکش بھی دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر نے اب تک یہ واضح نہیں کیا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے جا رہے حملوں میں شامل ہوں گے یا نہیں۔
تاہم انہوں نے کہا ہے کہ ایرانی حکام واشنگٹن میں ملاقات کے خواہش مند ہیں، جو سفارت کاری کی بحالی کی ایک ہلکی سی امید سمجھی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی (جو 2015 کے جوہری معاہدے کے فریق تھے) نے اتوار کے روز عباس عراقچی سے وزارتی سطح پر بات کی جب کہ یورپی یونین اور ان تین ممالک کے وزرا آج جنیوا میں ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات کریں گے۔