ایران ایک بار پھر جبری امن کا ’زہر‘ پی لے گا، یا تنازع مزید بڑھائے گا ؟
جولائی 1988 میں جب ایران کو امریکی حمایت یافتہ عراق کے خلاف جنگ میں مایوس کن حالات کا سامنا تھا، اس وقت اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھنے والے آیت اللہ روح اللہ خامنہ ای نے نہ چاہتے ہوئے جنگ بندی قبول کرنے اور تنازع ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ روح اللہ خامنہ ای نے ایرانیوں سے کہا تھا یہ ’زہر کا جام پینے کی مانند‘ ہے، لیکن نئے اسلامی جمہوریہ کی بقا کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔
1989 سے ملک کی قیادت کرنے والے ان کے جانشین، آیت اللہ علی خامنہ ای اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک علاقائی اور جوہری طاقت کے طور پر دوبارہ تعمیر کر چکے، اب ایک مشابہ فیصلہ کرنے کے لیے کھڑے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں کہ وہ ویسا ہی انتخاب کریں گے۔
86 سال کی عمر میں جب موجودہ خامنہ ای کی زندگی کا بہت سا کام ان کے ارد گرد تباہ ہو چکا ہے، ممکن ہے کہ وہ صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے سرنڈر کے مطالبے کو قبول کرنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دیں۔
امریکی حملے کے بعد ایران کا ابتدائی ردعمل جارحانہ تھا، وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکی مجرمانہ جارحیت کے خلاف تمام طاقت اور وسائل سے اپنے علاقے، خودمختاری، سلامتی اور عوام کا دفاع کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
ایران نے پہلے ہی اسرائیل پر ایک سنجیدہ میزائل حملہ کیا ہے، جیسا کہ اس نے خبردار کیا ہے، وہ خطے میں موجود 40 ہزار امریکی فوجیوں پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔
اہم بات یہ ہوگی کہ آیا ایران کی جوابی کارروائی طویل مدت تک جاری رہے گی یا نہیں؟، اگر وہ اتنا کچھ کرے کہ ایرانی عوام کو یقین دلائے کہ اس نے سرنڈر نہیں کیا، تو آیت اللہ خامنہ ای پھر امریکا کے ساتھ جنگ کے حل کے لیے بات چیت کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
جنوری 2020 میں، جب صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں ایک اہم ایرانی شخصیت، میجر جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں ڈرون حملے سے قتل کیا، ایران نے امریکی فوجیوں پر ایک زبردست میزائل حملے سے جواب دیا تھا، پھر ایران وسیع تر جنگ سے بچنے کے لیے رک گیا، جو نظام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔
چیتھم ہاؤس کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کی ڈائریکٹر سانم وکیل نے کہا کہ ایران کے پاس مختلف طریقے ہیں جن سے وہ مزاحمت بھی دکھا سکتا ہے اور برداشت بھی کر سکتا ہے، آیت اللہ خامنہ ای ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدہ ترک کر سکتے ہیں اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے معائنہ کاروں کو ملک سے نکال سکتے ہیں، جو ایران کے جوہری مراکز کی نگرانی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خامنہ ای خطے میں زیادہ تر خالی کیے گئے امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور یمن میں حوثیوں کو امریکی بحری جہازوں پر حملے دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
سانم وکیل کے مطابق یہ اصل میں ایک محتاط طریقہ ہوگا، جو یہ دکھائے گا کہ ایران ٹرمپ کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے، مگر مکمل علاقائی جنگ سے بچنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر خامنہ ای امریکی حملوں سے بچیں تو یہ سفارت کاری کے لیے راہ ہموار کرے گا، اور ٹرمپ کو ان کے افراط کو کم کرنے کا اشارہ دے گا۔ٹرمپ نے بھی ایران کو حملوں کی پیشگی اطلاع دے کر اور حملوں کو 3 اہم ایرانی جوہری مقامات تک محدود کر کے برداشت کا مظاہرہ کیا، جس میں سیاسی اور فوجی مراکز کو بچایا گیا۔
لیکن آیت اللہ خامنہ ای ٹرمپ پر بھروسہ نہیں کرتے، کیوں کہ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کرلی تھی۔
سانم وکیل نے سوال اٹھایا کہ اگر اب کوئی نیا معاہدہ ہو بھی جائے، کیا وہ ٹرمپ پر اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ پابندیاں ختم کرے گا اور اسرائیل کو بھی راضی کرے گا؟۔
انہون نے کہا کہ ایران اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہے، وہ خلیج فارس کے تنگ سمندر، آبنائے ہرمز کو بند کر سکتا ہے، جو تیل کی قیمتوں کو بڑھا سکتا ہے۔
وہ 2019 کی طرح خلیجی ریاستوں کی توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے کر سکتا ہے، ایران کے پاس ایک ماہر سائبر جنگی پروگرام ہے، جسے وہ فعال کر سکتا ہے، وہ القاعدہ کے ساتھ مل کر خطے اور بیرون ملک اسرائیلی اور امریکی مفادات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی ایرانی امور کی ماہر ایلی گیرانمائیہ کہتی ہیں کہ ایران جانتا تھا کہ یہ کچھ ہونے والا ہے اور اس نے جوابی کارروائیوں کی ایک سلسلہ تیار کیا ہے، اور اسرائیل کے خلاف فوری حملوں میں اضافہ ہوگا۔
گیرانمائیہ کے مطابق ٹرمپ کی کوششیں ناکام ہوں گی، امریکیوں کے خلاف حملے ’اب ناگزیر ہیں اور جلد اور کثیر الجہتی ہوں گے‘، ایران جانتا ہے کہ وہ جنگ نہیں جیت سکتا، لیکن وہ چاہتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل بھی ہار جائیں۔
کئی باتیں نقصان کے اندازے پر منحصر ہوں گی، جو ابھی واضح نہیں، یہ بھی واضح نہیں کہ ایران کے پاس جو زیادہ افزودہ یورینیم ہے، جو 10 ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہے، کہاں موجود ہے۔
بہت سے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ایران نے اسے کہیں چھپا رکھا ہے، جہاں ایٹمی توانائی ایجنسی کے معائنہ کار نہیں جا سکتے۔
ایٹمی توانائی ایجنسی نے اتوار کو کہا تھا کہ کوئی نئے حملے کے بعد اب تک تابکاری کا اخراج نہیں ہوا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یورینیم کے ذخائر پر حملہ نہیں ہوا۔
جانز ہاپکنز کے اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر اور ’ایران کی بڑی حکمت عملی‘ کے مصنف ولی نصر کہتے ہیں کہ اسی لیے امریکا اور یورپ کو چاہیے کہ وہ ایران کو جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے اور ایجنسی میں رکھیں تاکہ دنیا ایران کے جوہری پروگرام پر نظر رکھ سکے۔
ولی نصر کا ماننا ہے کہ یہ تنازع ابھی شروع ہوا ہے، ختم نہیں، ایران دوبارہ لڑنے کے لیے زندہ ہے، کوئی بڑا اقدام ایسا نہیں ہوگا جس کے بعد سب کچھ بدل جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران کے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اسے سنجیدہ ’خوف بنائے رکھنے والے رویے‘ کی ضرورت ہے، اور بم ہی واحد ایسا ذریعہ ہے جو کام کرے گا، ایران کے میزائل اور پراسکی گروہ اسے محفوظ نہیں رکھ سکے۔
گیرانمائیہ بھی اسی بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ’یہ بہت بڑا تضاد ہے، اگرچہ ٹرمپ ایران کے جوہری خطرے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن انہوں نے اب اسے جوہری ریاست بننے کا امکان زیادہ کر دیا ہے، اور اس کا مطلب ہو سکتا ہے کہ بمباری اور ایرانی جوابی حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس کے باوجود، گیرانمائیہ کا ماننا ہے کہ سفارت کاری تمام فریقوں کے لیے بہترین راستہ ہے، خطے میں ایک ہفتے تک جاری جنگ کے بعد شاید تہران اور واشنگٹن کے لیے سمجھداری کا موقع موجود ہو۔
ایٹلانٹک کونسل کے میتھیو کرونگ شکی ہیں نے ای میل میں کہا کہ ایران کو شاید جوہری پروگرام دوبارہ تعمیر نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ ان کے مہنگے جوہری پروگرام کو بہت نقصان پہنچا ہے، ایران نے اربوں ڈالر اور دہائیاں صرف کیں تاکہ پابندیوں اور امریکا کے ساتھ تباہ کن جنگ کا سامنا کرنا پڑے، پھر سے وہی صورت حال کیوں پیدا کریں؟۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایران دوبارہ جوہری بم بنانے کے لیے تعمیرات کرے گا تو، امریکا دوبارہ حملہ کر سکتا ہے۔