دنیا

شاہ ایران کے جلاوطن بیٹے رضا شاہ پہلوی ایک بار پھر حکومت ہتھیانے کیلئے سرگرم

ماضی میں کئی بار موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیتن یاہو سے ملاقات سے لیکر دشمن ممالک کی مدد سے سیاسی کردار لینے کی ناکام کوششیں کیں، اب پھر اپنا خواب زندہ کرنے کیلئے کوشاں ہیں، تہران ٹائمز

معزول شاہ ایران کے جلاوطن بیٹے رضا شاہ پہلوی (جنہیں 1979 کے اسلامی انقلاب میں اقتدار سے ہٹایا گیا تھا) ایک بار پھر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پرانے اور ناکام عزائم کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تہران ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق رضا شاہ پہلوی نے گزشتہ 40 سال سے ایرانی سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ہے، اور بغیر کسی عوامی حمایت یا قانونی جواز کے بارہا ایران کے دشمن ممالک کا سہارا لیا ہے، جو ان کے عزائم میں موجود مایوسی اور سیاسی موقع پرستی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس بار، جب خطے میں تناؤ اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے بعد بڑھ رہا ہے، وہ ایک بار پھر غیر ملکی حملوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے اقتدار میں واپسی کے خواب کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقاتوں سے لے کر حالیہ اسرائیلی حملوں کے دوران تل ابیب کی حمایت تک، رضا پہلوی نے بارہا یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ قومی مفاد کے بجائے ذاتی اقتدار کی خواہش کو ترجیح دیتے ہیں۔

پیر کے روز پیرس میں ایک تقریر کے دوران، پہلوی نے غیر ملکی طاقتوں سے مدد مانگی تاکہ اپنے سیاسی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔

اتوار کو }ایران انٹرنیشنل{ نامی ایک ایران مخالف نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پہلوی نے سادہ لوحی سے دعویٰ کیا کہ ایران کا سیاسی و عسکری نظام ٹوٹ رہا ہے, اور عوام کو فوری بغاوت کی دعوت دی۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ایران کے لیے ایک عبوری منصوبہ موجود ہے, ایک ایسا منصوبہ جو غیر ملکی مداخلت پر مبنی ہے اور نوآبادیاتی دور کی بازگشت سناتا ہے۔

تہران کے ایک سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ پہلوی کا ایران دشمن حکومتوں پر انحصار نام نہاد اپوزیشن کی سیاسی دیوالیہ پن کو ظاہر کرتا ہے، انہیں نہ عوامی حمایت حاصل ہے، نہ اندرونی اعتبار، اور نہ ہی ایرانی خودمختاری پر مبنی کوئی واضح سیاسی وژن۔

مبصرین کے مطابق پہلوی کے بیانات جلاوطن اپوزیشن کی ایک وسیع تر روش کی عکاسی کرتے ہیں (جیسے ایم کے او کی سربراہ مریم راجاوی اور نیویارک میں مقیم مسیح علی نژاد) جو قومی بحرانوں کے دوران ایرانی عوام کے بجائے غیر ملکی طاقتوں کا ساتھ دیتی ہیں۔

مجاہدین خلق (ایم کے او) کی رہنما مریم راجاوی نے ایران-عراق جنگ کے دوران صدام حسین کے ساتھ اتحاد کیا تھا، اور ان کا جاسوسی و دہشت گردی کا طویل ریکارڈ ہے، انہوں نے بھی حالیہ اسرائیلی حملوں کی حمایت کرتے ہوئے انہیں ایک نئے باب کی شروعات قرار دیا۔

یورپی پارلیمنٹ میں ان کے بیانات (جہاں انہیں پلیٹ فارم فراہم کیا گیا) کو ایرانی حکام اور کئی آزاد مبصرین نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا، جو یورپی ممالک کی خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی شراکت داری کا ثبوت سمجھے جا رہے ہیں۔

ادھر، مسیح علی نژاد (جو مغربی فوجی مداخلت کی بارہا حامی رہی ہیں) نے اسرائیل کو ایران پر حملے پر نہیں بلکہ ناقص وقت پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملوں نے اپوزیشن کی حکمت عملی کو متاثر کیا اور رجیم چینج کے منصوبے کو 15 سے 20 سال پیچھے دھکیل دیا، اس بیان سے یہ غیر مستقیم اعتراف بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملے الٹا اثر دے گئے اور عوام میں غیر ملکی جارحیت کے خلاف مزید اتحاد پیدا ہوا۔

ایران میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان جلاوطن مخالفین کے بیانات پر شدید تنقید کی ہے، اور انہیں حقیقت سے کٹا ہوا قرار دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عام ایرانی غیر ملکی فوجی حملوں کو اپنی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔